پہلےعلما حق بیانی کو ترجیح دیتے تھے، اَب حق بیانی پر لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
یہ جو نئی پود آرہی ہے (الا ماشاءاللہ)، اس نے تو مذہب و مسلک ہی یہ بنالیا ہے کہ:
کسی کی دل آزاری نہیں کرنی۔
یاد رکھیے! جو عالم ”صِرف“ یہ سوچ کر لکھتا اور بولتا ہے کہ:
”میں نے کسی کی دل آزاری نہیں کرنی۔“
وہ حق بیانی سے محروم ہو جاتا ہے، اور منافقت و مداہنت اس کے رَگ و پے میں سرایت کرجاتی ہے۔
دین دار عالِم وہی ہے جو دینِ حق کو، بیان کرنے کے لیے حق گوئی سے کام لے، پھر چاہے لوگوں کی دل آزاری ہو یا دل جوئی۔
فقیہِ اعظم مولانا محمدشریف کوٹلوی رحمہ اللہ ایک جگہ تقریر کرنے گئے تو اُنھیں کہا گیا:
حضرت! کسی کے خلاف تقریر نہیں کرنی، تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔
آپ نے فرمایا: کس موضوع پر کرنی ہے؟
کہا گیا: نماز ، روزے اور اصلاحِ معاشرہ پر۔
آپ نے فرمایا:
نماز پر تقریر کرتے ہوئے جب بے نمازی کی سزائیں بیان کروں گا، اور کہوں گا جو نماز نہیں پڑھتا وہ مجرم اور مستحق عذاب ہے، تو تقریر اختلافی ہوجائے گی؛ جس سے بے نمازیوں کی دل آزاری ہو جائے گی۔
اسی طرح اصلاح معاشرہ کرتے ہوئے جب جھوٹوں، رشوت خوروں، خائنوں، بد دیانتوں کی مذمت کروں گا تو اُن کی دل آزاری ہوجائے گی؛ اب بتائیں میں کیا کروں!!
علامہ قاری لقمان شاہد حفظہ اللہ
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here