جب عاشقانِ مصطفی اپنے نبی ﷺ کی آمد کی خوشیاں مناتے ہیں تو کچھ کلمہ پڑھنے والوں کو ہی بہت تکلیف ہوتی ہے اور ان کی یہ پریشانی اعتراض بن کر ہمارے سامنے آتی ہے- ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو حضور اکرم ﷺ کی آمد کا جشن منایا جاتا ہے تو اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ولادت تو آٹھ تاریخ کو ہوئی تھی جیسا کہ اعلی حضرت نے لکھا ہے، تو پھر بارہ تاریخ کو جشن کیوں؟
حقیقت میں اسے ہی کہتے ہیں "کھسیائی بلی کھمبا نوچے" لیکن یہاں تو کھمبا بھی نہیں!
اگر ہم اس بات کو تسلیم بھی کر لیں کہ اعلی حضرت نے آٹھ ربیع الاول کو ہی درست قرار دیا ہے اور آٹھ ہی تاریخ کو جشن منانا شروع بھی کر دیں تو کیا ان کو تکلیف نہیں ہوگی؟ بالکل ہوگی اور یہ کہیں گے کہ جب جمہور علما کا قول بارہ ربیع الاول ہے تو پھر آٹھ تاریخ کو جشن کیوں؟
در اصل یہاں مسئلہ تاریخ کا نہیں ہے بلکہ مقصود مسلمانوں کو ایک کار ثواب سے دور کرنا ہے- ہمیں چاہیے کہ ایسے لوگوں کی باتوں کو ایک کان سے سنیں اور دوسرے کان سے نکال دیں، یہ لوگ ہمارے بزرگوں بالخصوص اعلی حضرت رحمہ اللہ کی عبارات میں خیانت کرتے ہیں اور آدھی ادھوری بات کو دکھا کر عوام کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں-
اعلی حضرت رحمہ اللہ کے متعلق یہ کہنا کہ ان کے نزدیک حضور اکرم ﷺ کی تاریخ ولادت آٹھ ربیع الاول ہے، یہ قطعی درست نہیں اور اس پر زیادہ کچھ نہ کَہ کر ہم ان کے ایک شعر کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
(امام اہل سنت، اعلی حضرت علیہ الرحمہ)
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here