پسلی اور محبت

علامہ عبد الوهاب شعرانی (م973ھ) لکھتے ہیں کہ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے ہی کیوں پیدا کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں یہ حکمت ہے کہ (پسلی میں جھکاؤ ہے اور) اس جھکاؤ کی وجہ سے عورت کو اپنے اولاد اور اپنے شوہر کی طرف میلان رہے- مرد کا بیوی کی طرف مائل ہونا حقیقت میں اپنے اوپر ہی مائل ہونا ہے کیوں کہ یہ اس کا جز ہے جب کہ عورت کا شوہر کی طرف میلان اس لیے ہے کہ پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں جھکاؤ اور میلان ہے-

شیخ (محی الدین عربی) نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اس جگہ کو جس سے آدم سے حوا نکلیں، شہوت کے ساتھ معمور فرمایا تاکہ وجود میں خلا (خالی جگہ) باقی نہ رہے- پس جب خواہش سے ڈھانپی گئی تو اس نے اس کی طرف میلان کیا اور یہ اپنی طرف ہی مائل ہونا ہے کیوں کہ وہ آپ کا جز اور حوا آپ کی طرف مائل ہوئیں کیوں کہ یہ ان کا وطن ہے جس سے وہ پیدا ہوئیں-

اگر کوئی کہے کہ جب تو حوا کی (آدم) سے محبت وطن کی محبت ہے جب کہ آدم کی محبت اپنی ذات کی محبت ہے تو جواب یہ ہے کہ ہاں یہ اسی طرح ہے- اسی لیے مرد کی عورت سے محبت ظاہر ہے کہ یہ اس کا عین ہے، رہی عورت تو اسے قوت دی گئی جسے حیا سے تعبیر کیا جاتا ہے پس اس پر اس کی قوت اخفا کی وجہ سے مرد کی محبت ظاہر نہیں ہوتی کیوں کہ وطن اس سے اس طرح متحد نہیں جس طرح اس سے آدم کا اتحاد ہے-

(الیواقیت والجواھر فی بیان عقائد الاکابر، مترجم، ص270)

مذکورہ اقتباس سے یہ باتیں ظاہر ہوئیں:
(1) مرد کا عورت کی طرف مائل ہونا حقیقت میں اپنی طرف ہی مائل ہونا ہے کیوں کہ وہ اس کا جز ہے-
(2) عورت کا بھی مرد کی طرف میلان ہے لیکن چوں کہ یہ مرد کی طرح اس کے جز کی مانند متحد نہیں بلکہ وطن سے محبت ہے اسی لیے عورت کی محبت ظاہر نہیں اور اس کی ایک وجہ حیا بھی ہے-

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post