نکاح میں لین دین ایک عام بات ہو گئی ہے- بنا کسی جھجک کے کہا جاتا ہے کہ ہمیں اتنے پیسے اور فلاں فلاں سامان چاہییں- ایک کم پڑھا لکھا شخص بھی اگر انصاف کی نظروں سے دیکھیے تو اسے اس لین دین کی خرابیاں نظر آ جائیں گی-
امام ابو طالب مکی علیہ الرحمہ (م386ھ) لکھتے ہیں کہ نکاح کرنے والے کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ عورت کو نکاح میں بہ طور جہیز کیا ملے گا اور نہ اس کے لیے یہ جائز ہے کہ اسے کچھ اس لیے دے تاکہ اسے زیادہ ملے اور لوگوں کے لیے بھی جائز نہیں کہ اسے کچھ ہدیہ کریں اور اس کو اس سے زیادہ قیمتی چیز دینے پر مجبور کریں- شوہر کے لیے روا ہے کہ اگر ان کا ارادہ معلوم ہو جائے تو ان کا ہدیہ قبول نہ کرے کیوں کہ یہ سب نکاح کی بدعت ہے اور یہ نکاح میں تجارت کی مانند ہے جو سود میں داخل ہے اور جُوا کے مشابہ ہے اور جس نے اس نیت کے ساتھ اس طرح نکاح کیا یا کرایا تو یہ نیت فاسد ہے اور اس کا یہ نکاح نہ دین کے لیے ہے نہ آخرت کے لیے!
حضرت سفیان ثوری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص نکاح کرتے وقت یہ پوچھتا ہے کہ عورت کیا لائے گی تو سمجھ لو کہ وہ چور ہے لہذا اس کے ساتھ نکاح مت کرو-
[آج تو مانگ کی جاتی ہے کہ یہ اور وہ ہونا چاہیے ورنہ نکاح نہیں ہوگا تو ایسے لوگوں کو چور سے بھی بدتر سمجھا جا سکتا ہے-]
(قوت القلوب، ج2، ص478، ط برکات رضا گجرات بہ حوالہ مہر اور جہیز، ص26)
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here