(دو پیار کرنے والوں کو ملانا)
زبیدہ خاتون رحمھااللہ نے مکہ شریف کے راستے میں ایک دیوار پر لکھا دیکھا:
اما فی عباداللہ اوفی امائہ
کریم یجلی الھم عن ذاھب العقل
لہ مقلة اما المآقی قریحة
واماالحشافالنار منہ عن رجل
کیا اللہ کے بندوں یا باندیوں میں کوئی بھی ایسا سخی نہیں، جو اُس دیوانۂ عشق کا غم غلط کرسکے جس کے گوشہ ہائے چشم زخم خوردہ ہیں، اور مَن کی آگ قدموں تک پہنچ رہی ہے-
زبیدہ نے منت مانی کہ اگر یہ شعر لکھنے والا مجھے مل گیا تو اسے اس کے محبوب تک پہنچادوں گی-
یہ جب مقامِ مزدلفہ پہنچیں، تو دیکھا کہ ایک شخص یہی اشعار گنگنا رہاہے-
اِنھوں نے اسے بلا کرپوچھا، تو وہ کہنے لگا:
"یہ اشعار میں نے اپنی چچا زاد کے لیے لکھے ہیں، جس کے گھروالوں نے قسم کھارکھی ہے کہ وہ اس کا نکاح میرے ساتھ نہیں کریں گے“
زبیدہ خاتون نے لڑکی کے اہلِ خانہ سے رابطہ کیا اور انھیں بہت سارا مال پیش کر کے نکاح کے لیے راضی کرلیا-
نکاح کے بعد معلوم ہوا کہ لڑکی، لڑکے سے بڑھ کر اس سے عشق کرتی تھی-
زبیدہ رحمھااللہ اپنے اس کام کوعظیم نیکیوں میں شمار کیا کرتی تھیں، اور کہتیں:
”مجھے اس کارِ خیر سے جتنی خوشی ملی، کسی کام سے نہیں ملی؛ میں نے دو محبت کرنے والوں کو جمع کر دیا-“
(انظر: الداء والدواء، ص563، ط دارعالم الفوائد، مکة المکرمة، س1429ھ)
اللہ کے رحم دل بندے ہمیشہ عشق کے مبتلاؤں پہ رحم کھاتے رہے ہیں؛ کیوں کہ رسول مکرم ﷺ کا فرمان ہے:
لم یر للمتحابین مثل التزوج
دو محبت کرنے والوں کا ہمیں نکاح سے بہتر کوئی حل نظر نہیں آتا-
اسلام میں بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ جیسے ناجائز رشتوں کا کوئی تصور نہیں؛ صرف پسند کے نکاح کی ترغیب ہے-
اگر مانع شرعی نہ ہو تو محبت کرنے والوں کے نکاح میں ضرور معاونت کرنی چاہیے، جہاں یہ بڑے اجر وثواب کا کام ہے، وہیں عظیم فتنے کے سدباب کا ذریعہ بھی ہے-
علامہ قاری لقمان شاہد
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here