امام شیخ ابو طالب مکی علیہ الرحمہ (م386ھ) لکھتے ہیں کہ جب کوئی شخص علم کی مجلس میں حاضر نہ ہو سکے تو اس کا نوافل پڑھتے رہنا اور اللہ تعالی کے دین میں غور و فکر کرنا، قصہ گوئی کی محفل میں جانے اور قصے کہانیاں سننے سے زیادہ پاکیزہ ہے کیوں کہ علماے کرام کے نزدیک قصہ گوئی ایک بدعت ہے اور وہ قصہ گو افراد کو مسجد سے باہر نکال دیا کرتے تھے؛ چناں چہ:
ایک دن سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما مسجد میں اپنی مخصوص نشست کے پاس آئے تو وہاں ایک قصہ گو کو قصہ سناتے پایا، پس اس سے ارشاد فرمایا: میرے بیٹھنے کی جگہ سے اٹھ جاؤ-
وہ بولا: میں نہیں اٹھوں گا، میں اس جگہ بیٹھ چکا ہوں- راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے سپاہی بلا کر اسے اس جگہ سے اٹھوا دیا-
اگر قصہ گوئی سنت ہوتی تو حضرت ابن عمر کبھی اس قصہ گو کو اس جگہ پر بیٹھنے کے بعد نہ اٹھاتے بالخصوص اس صورت میں کہ وہ آپ سے پہلے وہاں بیٹھ چکا تھا اور یہ کیسے ممکن ہے حالانکہ خود حضرت ابن عمر نے روایت بیان کی ہے کہ "تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود نہ بیٹھے بلکہ وسعت اور کشادگی اختیار کر لیا کرو-"
(صحیح مسلم، کتاب السلام)
منقول ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا نے ایک قصہ گو کے متعلق حضرت ابن عمر کو پیغام بھیجا تو آپ نے اس قصہ گو کی اتنی پٹائی کی کہ اس کی پشت پر مار مار کر اپنا عصا توڑ ڈالا، پھر اسے ایسے ہی پھینک دیا-
(قوت القلوب، اردو، ج1، ص336، 337، ملخصاً)
آج بھی ایسے قصہ گو افراد موجود ہیں جنھیں موٹی موٹی رقم دے کر قصے بیان کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے اور ان کے مقابلے میں علماے اہل سنت کو گھاس تک نہیں ڈالی جاتی- جنھیں مسجد سے باہر نکالنا چاہیے انھیں منبر پر بیٹھایا جاتا ہے اور دست بوسی کی جاتی ہے- نہ جانے لوگوں کو کب یہ بات سمجھ آئے گی-
اس بات کو سمجھے ہی نہیں اہل گلستاں
پھولوں کی زباں اور ہے کانٹوں کی زباں اور
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here