ٹائی

شہزادۂ اعلی حضرت، مفتی اعظم ہند، حضرت علامہ مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ٹائی لگانا اشد حرام ہے، شعار کفار بد انجام ہے، نہایت بد کام ہے، کھلا رد فرمان خداوند ذو الجلال والاکرام ہے- ٹائی نصاری کے یہاں ان کے عقیدۂ باطلہ میں یادگار ہے، حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کے سولی دیے جانے اور سارے نصاری کا فدیہ ہو جانے کی- والعیاذ باللہ تعالی

(فتاوی مفتی اعظم، ج5، کتاب الخطر والاباحة، ص144،
و فتاوی مصطفویہ)

حضور مفتی اعظم ہند ایک مرتبہ مبارک پور تشریف لے گئے تو ایک شخص ٹائی باندھے ہوئے آپ سے ملنے کے لیے حاضر خدمت ہوئے- جب قریب آئے تو حضور مفتی اعظم ہند نے ٹائی پکڑی اور پوچھا یہ کیا ہے؟ پھر خود ہی فرمایا کہ یہ انگریزوں کی تقلید ہے جسے وہ صلیب کی جگہ استعمال کرتے ہیں، جو قرآن سے متصادم عقیدے پر مبنی ہے- آپ نے اس کے گلے سے ٹائی اتروائی اور توبہ کروائی- اسی جگہ شمس العلما، حضرت مولانا قاضی شمس الدین جون پوری علیہ الرحمہ نے اس مسئلے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انگریز چوں کہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی دی گئی ہے اسی لیے وہ اپنے اس عقیدے کی بنا پر جگہ جگہ سولی کا نشان بناتے ہیں اور اسے اپنے گلے میں بھی لٹکاتے ہیں مگر ان کا یہ عقیدہ قرآن کے بالکل مخالف ہے-

(فتاوی مفتی اعظم، مقدمہ، ص298، ملتقطاً)

حضور تاج الشریعہ، حضرت علامہ مفتی اختر رضا خان علیہ الرحمہ نے اس مسئلے پر تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر تحقیق فرمائی ہے اور ٹائی کی شرعی حیثیت کو بیان کیا ہے- آپ کی یہ تحقیق ایک رسالے "ٹائی کا مسئلہ" کی شکل میں موجود ہے- اس رسالے کی تصدیق مولانا سید مصطفی حیدر قادری برکاتی (حسن میاں مارہروی) نے کی ہے- یہ رسالہ انگریزی میں مستقل طور پر موجود ہونے کے ساتھ ساتھ "ازہر الفتاوی انگریزی" میں بھی شامل کیا گیا ہے-

ایک سوال کے جواب میں مولانا محمد نیاز احمد برکاتی مصباحی، مفتی اعظم ہند کا فتوی نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ جن اسکولوں میں ٹائی لگانا لازمی ہے ان میں بچوں کو تعلیم دلانا حرام ہے-
اس فتوے کی تصدیق مفتی نظام الدین قادری مصباحی اور مولانا محمد ابرار احمد امجدی برکاتی نے کی ہے-

(انظر: فتاوی مرکز تربیت افتا، ج2، ص503، 504)

ایک دیوبندی ٹائی کے بارے میں لکھتا ہے کہ ٹائی کے استعمال میں یہ قباحت ہے اس میں غیر مسلم اقوام کی مشابہت پائی جاتی ہے اور اس بات کا بھی شبہ ہے کہ یہ در حقیقت سینے پر صلیب لٹکانے کی شکل ہو لہذا اس کے استعمال سے پرہیز کرنا لازمی ہے-

(اشرف الفتاوی، ص275)

دار العلوم دیوبند کے آن لائن دار الافتا میں ایک سوال کے جواب میں تحریر ہے کہ ٹائی غیر قوموں کا لباس ہے بلکہ اس کی ابتدا عیسائیوں کے باطل عقیدے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی دی گئی ہے کی علامت کے طور پر ہوئی تھی اس لیے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں-
ایک دوسری جگہ جواب میں لکھا گیا ہے کہ یہ انگریزی لباس کا حصہ ہے اور فساق و فجار کا بھی لباس ہے، اس کا پہننا ممنوع ہے-

(ملخصاً: دار الافتا دیوبند ویب سائٹ، جواب163957، فتوی آئی ڈی: 863-1151،
و جواب36266، آئی ڈی: 272=172-2/1433)

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post