میرے پاس ایک افسردہ (اُداس) شخص تعویذات کے لیے آیا اور کہنے لگا: میں نے پسند کی شادی کی تھی، لیکن میری اہلیہ نے زبردستی طلاق لے لی حالاں کہ اس نے ہمیشہ ساتھ نبھانے کا پکا وعدہ کیا تھا اور قسمیں بھی کھائی تھیں........،
اب میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا، میرا کوئی حل نکالیں-
میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا: آپ کاحل نکالتا ہوں، لیکن اس سے پہلے میری بات سن لیں!
حضرت عاتِکہ بنت زید کا نکاح حضرت عبداللہ بن ابو بکر صدیق سے ہوا تھا- آپ ان سے بے حد محبت کرتے تھے، ان کی جدائی بالکل برداشت نہ کرتے- اسی وجہ سے جب بعض جنگوں میں شریک نہ ہو سکے تو سیدنا صدیق اکبر نے کہا: اپنی بیوی کو طلاق دے دو!
آپ نے والد کی اطاعت کرتے ہوئے بادل نخواستہ (بے دلی سے) طلاق (رجعی) تو دے دی، لیکن شدت محبت میں اشعار پڑھتے رہتے تھے-
ایک دن سیدنا صدیق اکبر نے سنا، وہ کَہ رہے تھے:
اے عاتکہ! میں تجھے اس وقت تک نہیں بھولوں گا جب تک مشرق سے روشنی نکلتی رہے گی اور طوق دار قُمری کُو کُو کرتی رہے گی-
اے عاتکہ! ہر دن رات میرا دل تجھے یاد کرتا رہے گا، ان جذبات کی وجہ سے جو میرے اندر چُھپے ہیں-
یہ اشعار سن کر سیدنا صدیق اکبر پر رقت طاری ہوگئی، اور آپ نے فرمایا: (طلاق سے) رجوع کرلو!
کچھ عرصے بعد جب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو حضرت عاتکہ نے ان کا مرثیہ کہا، جس کا ایک شعر یہ تھا:
فآلیت لاتنفک عینی حزینة
علیک، ولا ینفک جلدی اغبرا
میں نے قسم کھائی ہے کہ میری آنکھیں آپ پر ہمیشہ روئیں گی، اور میرا بدن غبار آلود رہے گا-
پھر سیدنا عمر فاروق نے حضرت عاتکہ کو پیغامِ نکاح بھیجا، جسے آپ نے قبول کرلیا-
ولیمے پر حضرت علی بھی موجود تھے؛ آپ کہنے لگے:
امیر المومنین! اجازت دیں میں عاتکہ سے بات کرنا چاہتاہوں-
اجازت ملنے پر آپ نے دروازے کی اوٹ میں کھڑے ہوکر کہا:
یاعدیة نفسھا این قولک-
اے اپنی جان کی دشمن، تیرا یہ قول کہاں گیا:
فآلیت لاتنفک عینی حزینة
علیک ولا ینفک جلدی اغبرا
(کہ اے عبداللہ!) میں نے قسم کھائی ہے میری آنکھیں تم پر ہمیشہ روئیں گی، اور میری جلد غبار آلود رہے گی-
یہ سن کر حضرت عاتکہ رو پڑیں-
سیدنا عمر کہنے لگے:
اے ابوالحسن! آپ کو یہ بات دہرانے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟
کل النساء یفعلن ھذا
ساری عورتیں اسی طرح کرتی ہیں-
(انظر: اسدالغابة فی معرفة الصحابة، باب العین، ج5، ص337، ر7088، دارالمعرفة بیروت)
میں نے کہا:
اس میں ہمارے لیے بہت کچھ سبق ہے!!
عورت کے بہتے آنسو اور محبت بھرے الفاظ پر بہت زیادہ اعتماد کرنے کے بجائے، عقل و سمجھ سے کام لیتے ہوئے، اپنے آپ کو قابو میں رکھنا چاہیے-
دانا کہتے ہیں:
1- کھانا جب تک ہضم نہ ہوجائے اس کی تعریف نہیں کرنی چاہیے-
2- دوست سے جب تک قرض نہ مانگ لیں اس پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے ۔
3- اور عورت کی مرنے سے پہلے تعریف نہیں کرنی چاہیے ۔
(انظر: المستطرف فی کل فن مستظرف، الباب الثانی فی العقل والذکاء، ص20، ط دارالکتب العلمیة بیروت، س1436ھ)
کیوں کہ کھانا، ہضم ہونے سے پہلے پیٹ اور معدہ بھی خراب کرسکتا ہے؛ اس لیےقابلِ تعریف اسی وقت ہوگا جب ہضم ہوجائے گا-
اور باتوں باتوں میں دوستی کے بلند بانگ دعوے ہرکوئی کرسکتاہے، لیکن جب قرض مانگاجائے تو معلوم ہوتا ہے وہ کتنا مخلص ہے-
اور عورت زندگی میں کسی موڑ پر بھی وفا بدل سکتی ہے (جیسے آپ کے ساتھ ہوا)؛ اس لیے مرنے سے پہلے تعریف وتوصیف سے پرہیز کرنا چاہیے-
آج کل ہمارے نوجوانوں کی ایک تعداد عورتوں کی ڈَسی ہوئی ہے، اللہ پاک ان کے حال پر رحم فرمائے-
بے انتہا محبت، صرف اور صرف رسول پاکﷺ سے کریں؛ باقی سب محبتیں جھوٹی ہیں-
محمد بوٹیا جُھوٹا ای جگ سارا
کملی والے دِیاں سچیاں یاریاں نے
علامہ قاری لقمان شاہد
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here