امام غزالی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ ایک شخص اپنے دوست کے پاس گیا اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا.....،
دوست نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ اس نے کہا کہ مجھ پر چار سو درہم قرض ہیں؛ دوست نے چار سو درہم اس کے حوالے کر دیے اور روتا ہوا (گھر کے اندر) واپس آیا!
بیوی نے کہا کہ اگر ان درہموں سے تجھے اتنی محبت تھی تو دیے کیوں؟
اس نے کہا کہ میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ مجھے اپنے دوست کا حال اس کے بتائے بغیر کیوں نہ معلوم ہو سکا حتی کہ وہ میرا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو گیا-
(انظر: احیاء العلوم الدین، اردو، ج3، ص843)
امام غزالی مزید لکھتے ہیں کہ دوستی کو نکاح کے تعلق کی طرح تصور کرنا چاہیے کیوں کہ اس میں بھی حقوق ہیں- جو چیز ضرورت اور حاجت سے زائد ہو اسے بنا مانگے اپنے دوست کو دے دے؛ اگر اسے مانگنے اور کہنے کی نوبت آئے تو یہ دوستی کے درجے سے خارج ہے-
(ملخصاً: کیمیائے سعادت، اردو، ص291)
دوستی صرف ٹائم پاس کرنے کا کھلونا نہیں ہے کہ جب جی چاہا کھیلا اور ضرورت پوری ہونے پر پھینک دیا بلکہ یہ ایک بہت پیارا رشتہ ہے-
اس رشتے کو نبھانا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں- دوست کی ضرورت کو محسوس کرنے کا نام دوستی ہے- اگر ہمارے پاس مال ہے اور دوست کو ضرورت ہے تو اس کے منھ کھولنے سے پہلے دے دینے کا نام دوستی ہے-
اس زمانے میں ایسے دوست بہت کم ملتے ہیں جو اس رشتے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، شاید میں بھی ان میں سے نہیں- ہمارے دوستوں کی تعداد تو سیکڑوں میں ہے لیکن کیا ہم نے کسی ایک سے بھی اچھی طرح دوستی نبھائی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے میں نے گزرے ہوئے دنوں کو یاد کیا تو کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی کہ میں جواب میں "ہاں" کَہ سکوں..........!!!
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here