دنبہ جنتی یا دنیاوی؟ 

ہم بچپن سے ہی یہ بات سنتے آ رہے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے ذبح کرنا چاہا تو اللہ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام ایک دنبہ لے کر آئے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ وہ دنبہ ذبح ہوا۔ اس واقعے کو مختلف طریقوں سے الفاظ کی کمی و بیشی کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، لیکن جب ہم کئی کتابوں میں اس واقعے پر غور کریں گے تو ذبح ہونے والے دنبے کے بارے میں کئی سوالات ذہن میں آئیں گے، مثال کے طور کچھ سوالات ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں:

(1) کیا ذبح ہونے والا دنبہ جنتی تھا؟
(2) اس کا گوشت کہاں گیا؟
(3) کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کا گوشت اس لیے نہیں پکایا گیا کیوں کہ جنتی چیزوں پر آگ اثر نہیں کرتی تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے دور میں اس جنتی دنبے کی سینگ میں آگ کیسے لگی؟ 
(4) کئی کتابوں میں جب اس کے سینگ کے جلنے کی صراحت موجود ہے تو پھر اس کے جنتی ہونے پر حرف آئے گا یا نہیں؟

اس مختصر سے مضمون میں ہم اسی طرح کے کچھ سوالوں کے جوابات دلائل کی روشنی میں دینے کی کوشش کریں گے۔

حضرت علامہ مفتی محمد اسماعیل حسین نورانی لکھتے ہیں کہ حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جو دنبہ ذبح ہوا تھا وہ کہاں سے آیا تھا؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں، اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ دنبہ جنت سے اتارا گیا تھا، جیسا کہ تفسیر خازن، تفسیر بغوی اور دیگر تفاسیر میں موجود ہے۔ (خازن، ج4، ص39)

اب رہا یہ سوال کہ اس دنبے کا گوشت کہاں گیا یا کیسے تقسیم ہوا؟ تو اس حوالے سے علامہ صاوی مالکی اور سید سلیمان جمل کی رائے یہ ہے کہ وہ دنبہ چوں کہ جنت سے اتارا گیا تھا اور جنت کی چیزوں پر آگ اثر نہیں کرتی، اس لیے اس کا گوشت پکایا نہیں گیا اور نہ تو تقسیم کیا گیا بلکہ اسے پرندوں اور درندوں نے کھا لیا۔ علامہ صاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس دنبے کے اجزا کو پرندوں اور درندوں نے کھا لیا کیوں کہ جنت کی چیزوں پر آگ اثر نہیں کرتی اور علامہ سید سلیمان جمل رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
یہ بات ثابت ہے کہ جنت کی کسی بھی چیز پر آگ اثر نہیں کرتی، اس لیے اس دنبے کا گوشت پکایا نہیں گیا بلکہ اسے درندوں اور پرندوں نے کھا لیا۔ (حاشیۃ الجمل علی الجلالین، ج3، ص549)

(انظر: انوار الفتاوی، ج1، ص287، ط فرید بک سٹال لاہور)

اسی طرح حضرت علامہ مفتی محمد یونس رضا اویسی لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس جنتی مینڈھے کو ذبح کیا اس کا گوشت کس نے کھایا تھا؟ اس بارے میں کوئی روایت نظر سے نہ گزری البتہ یہ دیکھا کہ اس کے گوشت کو درندوں اور پرندوں نے کھایا تھا۔ تفسیر صاوی میں ہے کہ ذبح کے بعد مینڈھے کے گوشت کو درندوں اور پرندوں نے کھا لیا کیوں کہ آگ جنتی چیزوں پر اثر نہیں کرتی۔ (صاوی، ج3، ص322)

(انظر: فتاوی بریلی شریف، ص301، ط زاویہ پبلشرز لاہور)

مذکورہ عبارات سے معلوم ہوا کہ وہ دنبہ جنتی تھا اور اسی وجہ سے اس کا گوشت پکایا نہیں گیا لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی، ابھی ہمارے سامنے اور بھی کچھ اقوال ہیں جن سے الجھنیں مزید بڑھتی ہیں چناں چہ:

تفسیر کی کئی کتابیں مثلاً تفسیر کبیر، تفسیرات احمدیہ، تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی اور تفسیر روح البیان وغیرھم میں صراحتاً اس بات کا ذکر ہے کہ اس مینڈھے کی سینگ کعبہ شریف میں آویزاں تھی، یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں فتنۂ حجاج بن یوسف کے وقت کعبہ شریف میں آگ لگی اور وہ (سینگ) جل گئی۔ اب یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب اس مینڈھے کا گوشت اس وجہ سے نہیں پکایا گیا کہ وہ جنتی ہے اور جنتی چیزوں پر آگ اثر نہیں کرتی تو پھر اسی جنتی مینڈھے کی سینگوں میں آگ کیسے لگی اور وہ کیسے جل گئی؟ اب یا تو وہ جنتی نہیں اور اگر جنتی ہے تو سینگ کا جلنا ممکن نہیں۔ اسی گتھی کو سلجھانے کے لیے اب ہم مزید اقوال کو نقل کر رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:

فتاوی فقیہ ملت میں ایک سوال ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس جنتی مینڈھے کو ذبح کیا تھا اس کو جانوروں نے کھا لیا اور اس کی سینگ کعبہ میں رکھ دی گئی جو کعبہ میں آگ لگنے کی وجہ سے جل گئی تو سوال یہ ہے کہ جب جنتی چیزوں کو آگ نہیں کھا سکتی تو اس کی سینگ کیسے جل گئی؟ 

جواب میں لکھا گیا ہے کہ جو مینڈھا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ذبح ہوا تھا اس کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ وہ جنت سے آیا تھا اور بعض کے نزدیک یہ ہے کہ وہ منجانب اللہ شبیر پہاڑ سے اتارا گیا تھا اور اگر یہ صحیح ہے کہ یزیدی حملے کے وقت اس کی سینگ جل گئی تھی تو ظاہر یہی ہے کہ وہ شبیر پہاڑ ہی سے آیا تھا۔

(انظر: فتاوی فقیہ ملت، ج2، ص281، کتاب الخطر والاباحۃ، ط شبیر برادرز لاہور)

حضرت علامہ مفتی محمد وقارالدین رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ذبح ہونے والے دنبے کا گوشت کہاں گیا؟ بانٹ دیا گیا، آگ اٹھا کر لے گئی یا کوئی درندہ کھا گیا؟
آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ اس بارے میں تفاسیر میں مختلف اقوال بیان کیے گئے ہیں۔ اس پر تو اتفاق ہے کہ اس دنبے کے سینگ خانۂ کعبہ میں رکھے گئے تھے اور حضور اکرم ﷺ کی ظاہری حیات تک محفوظ تھے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں حجاج بن یوسف نے مکے پر حملہ کیا تھا جس سے خانۂ کعبہ میں آگ لگ گئی تھی تو سینگوں کا کیا ہوا؟ اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔
گوشت کے متعلق زیادہ مشہور قول یہ ہے جسے علامہ صاوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس کا گوشت جانور کھا گئے تھے۔ (صاوی میں وجہ بھی بیان کی گئی ہے جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں) 

(انظر: وقار الفتاوی، ج1، ص70، ط باب متعلقہ انبیاے کرام)

مفتی محمد خلیل خان برکاتی سے سوال ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس دنبے کو ذبح فرمایا اس کی کھال کدھر گئی؟ 
جواب میں لکھتے ہیں کہ فقیر کے علم میں نہیں کہ وہ کھال کہاں گئی۔

(انظر: احسن الفتاوی المعروف بہ فتاوی خلیلیہ، ج1، ص399، ط ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)

مذکورہ تمام عبارات سے بھی مکمل طور پر بات سمجھ میں نہیں آتی لہذا اب ہم ایک آخری عبارت کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اس عبارت کے بعد ہم کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

حضرت مولانا محمد عاصم رضا قادری سے اسی بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے تحقیقی جواب تحریر فرمایا جس کی تصدیق حضرت علامہ مفتی قاضی محمد عبد الرحیم بستوی نے فرمائی ہے۔ 
آپ جواب میں لکھتے ہیں کہ یہ بات تو صحیح ہے کہ جنتی چیزوں پر آگ اثر نہیں کرتی جیسا کہ علامہ صاوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے اور مینڈھے کی سینگوں کے جلنے کی صراحت کتب تفاسیر میں موجود ہیں مثلاً تفسیر کبیر، تفسیرات احمدیہ، تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی اور تفسیر روح البیان وغیرھم۔

(مزید لکھتے ہیں کہ) اس مینڈھے کے جنتی ہونے میں اختلاف ہے، چناں چہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جو جانور ذبح کیا گیا وہ ایک پہاڑی بکرا تھا جو "شبیر پہاڑ" سے اترا تھا اور یہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی قول ہے تو اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں لیکن حضرت ابن عباس و علامہ سدی اور دیگر مفسرین کے کلاموں میں یہ ہے کہ وہ جنتی مینڈھا تھا جسے بہ حکم الٰہی حضرت جبریل علیہ السلام جنت سے لے کر آئے اور یہ وہی مینڈھا تھا جس کی حضرت آدم علیہ السلام کے لڑکے "ہابیل" نے قربانی کی تھی۔ یہ مینڈھا چالیس سال تک جنت میں چرتا رہا اور پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ قربان کیا گیا مگر اس سے فی نفسہ اس کا جنتی ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ تفسیر روح البیان کی روایت کے مطابق یہ وہی مینڈھا تھا جسے حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے نے بارگاہ الہی میں پیش کیا تھا۔ (تفسیر روح البیان، ج2، ص379)

ان روایات سے اس کا جنتی ہونا ثابت نہیں ہوا تو اب اس کی سینگ کا جلنا دنیاوی چیز کا جلنا ہوا۔ بہرحال تفسیری روایات مختلف ہیں قطعی فیصلہ مشکل ہے۔

(انظر: فتاوی بریلی شریف، ص364، 365، 366، ط زاویہ پبلشرز لاہور)

عبد مصطفی

1 Comments

Leave Your Precious Comment Here

  1. میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت کہاں ہوئی تحقیق کے ساتھ بیان کریں کیوں کہ اس معاملے اکثر مقررین کو یہ کہتے سنا ہے آپ کی ولادت کعبے شریف کے اندر ہوئی ہے بات کہاں تک کہ درست ہے جب کہ یہ بھی سان ہے کہ آپ کی ولادت کعبے میں نہیں ہوئی۔

    ReplyDelete

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post