امام حسن کو زہر کس نے دیا؟
(سلسلہ "کربلا سے متعلق کچھ جھوٹے واقعات" سے منسلک) 

امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو زہر دے کر شہید کیا گیا اور مشہور ہے کہ زہر دینے والی آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث تھی۔ 
بعض علما نے بھی زہر خورانی کی نسبت جعدہ بنت اشعث کی طرف کی ہے لیکن بعض علما نے اس کو ناقابل قبول اور حقیقت کے خلاف بتایا ہے۔

سب سے پہلے ہم ان علما میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں جنھوں نے زہر دینے کی نسبت جعدہ بنت اشعث کی طرف کی ہے:

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ 
(سر الشھادتین، ص14، 25)
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ 
(تاریخ الخلفاء، 192)
امام ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ 
(الصواعق المحرقہ، ص141) 
علامہ حسن رضا خان بریلوی رحمہ اللہ 
(آئینۂ قیامت، ص21) 
اور مفتی اعظم ہند، علامہ مصطفی رضا خان رحمہ اللہ نے اسی کو درست قرار دیا ہے۔
(فتاوی مفتی اعظم ہند، ج5، ص306 تا 310)

اب ان علما کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں جن کا موقف اس کے خلاف ہے:

حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی اس بابت لکھتے ہیں کہ مؤرخین نے زہر خورانی کی جعدہ بنت اشعث کی طرف کی ہے لیکن اس روایت کی کوئی سند صحیح دستیاب نہیں ہوئی اور بغیر دلیل کسی مسلمان پر قتل کا الزام کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ تاریخیں بتاتی ہیں کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بھائی سے زہر دینے والے کے متعلق دریافت کیا اور اس سے ظاہر ہے کہ امام حسین کو زہر دینے والے کا علم نہ تھا۔ امام حسن نے بھی کسی کا نام نہیں لیا تو اب ان کی بیوی کو قاتل معین کرنے والا کون ہے۔

(دیکھیے: سوانح کربلا، ص101، 102، ملخصاً)

فقیہ ملت، حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی،
شیخ الحدیث، حضرت علامہ عبد المصطفی اعظمی،
حکیم الامت، حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی، 
حضرت علامہ محمد شبیر کوٹلی، 
حضرت علامہ عبد السلام قادری، 
حضرت علامہ مفتی غلام حسن قادری اور حضرت علامہ قاری محمد امین القادری رحمھم اللہ نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔

(دیکھیے: فتاوی فقیہ ملت، ج2، ص406، 407،
خطبات محرم، ص279، 280،
حقانی تقریریں، ص226، 
حضرت امیر معاویہ پر ایک نظر، ص69، 
شہادت نواسۂ سید الابرار، ص288،
تاریخ کربلا، ص195 تا 197،
کربل کی ہے یاد آئی، ص89، 90) 

یہی دوسرا قول زیادہ صحیح ہے اور احتیاط کے قریب ہے۔ محض مشہور ہونے کی بنا پر امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی پر الزام لگانا درست نہیں ہے۔

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post