ہم تو چلے پردیس

ملک میں کام نہیں ہے، لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور ہمیں اپنے بچوں کو مہنگے پرائیویٹ اسکول میں پڑھا کر انگریز کا باپ بھی بنانا ہے تو پردیس جانا ہی پڑے گا۔ بیوی کو زیادہ نہیں صرف دو سال تک کنٹرول کرنا پڑے گا اور وہ اتنا کر بھی لے گی کیوں کہ وہ پتھر کی بنی ہوئی ہے ساتھ میں پیسوں کی خواہش بھی ہے جس سے اسے پتھر کا بننے میں مدد ملے گی۔

شوہر بھی غیر معمولی قوتوں کا مالک ہے اور اس کے اندر روبوٹس (Robots) والی صفات بھی ہیں تو دو سال تک اس کے لیے خود کو روکنا معمولی سی بات ہے۔ یہ اتنا آسان ہے کہ دو سال تک نہ تو اس سے بد نگاہی کا ارتکاب ہوگا اور نہ تو مشت زنی کی ضرورت پڑے گی۔ 

ہماری باتیں پڑھنے میں تھوڑی عجیب لگیں گی لیکن اس سے زیادہ عجیب وہ لوگ ہیں جن کا پاخانہ بنِا ٹائلس (Tiles) والے باتھ روم (Bathroom) میں شاید نکلتا ہی نہیں اور اسی لیے انھیں پردیس جانا پڑتا ہے۔
گھر کی ہر دیوار میں چار پی (PPPP) چاہییں یعنی پلاسٹر (Plaster)، پرائمر (Primer)، پُٹی (Putty) اور پینٹ (Paint) تو اب پردیس جانا ہی پڑے گا۔ اگر بات صرف کھانے، پینے اور رہنے کی ہوتی تو ملک میں بھی کروڑوں لوگ زندہ ہیں لیکن اب چار پی کے لیے پردیس تو جانا ہی پڑے گا اور باتھ روم کے بارے میں بھی آپ جان ہی چکے ہیں۔

پردیس جانا، دو سال تک تڑپنا، رونا اور اشعار پڑھنا، آڈیو کال اور ویڈیو کال سے دل بہلانا، اکیلے خوشیاں منانا اور ریال، درہم، دینار وغیرہ گھر بھیج کر یہ سمجھنا کہ خوشیوں کا سامان بھیج دیا، شاید ان میں ایک الگ لطف ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتا اور سچ بتائیں تو آ بھی نہیں سکتا۔

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post