ایک ہی تقریر بار بار

کچھ مقررین ایک ہی بیان بار بار کرتے ہیں، اتنی بار کرتے ہیں کہ لوگ بے رغبت ہونے لگتے ہیں۔ ایک ہی واقعے یا ایک ہی روایت کو اس انداز میں مسلسل بیان کرتے ہیں کہ گویا کوئی ریکارڈنگ چل رہی ہو۔ ایک مقرر کو سننا ہوا جنھوں نے ہمارے شہر آ کر ایک پروگرام میں کہا کہ "یہ بات میں نے کہیں بیان نہیں کی ہے، پہلی بار آج بیان کر رہا ہوں" اور اتفاق دیکھیے کہ میں نے خود کچھ دنوں قبل ان سے یہ بات کسی دوسرے شہر میں سنی تھی! ایسا اتفاق ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے میرا جلسوں میں بہت زیادہ جانا ہوتا تھا۔ سو دو سو کلومیٹر کی دوری پر بھی کوئی جلسہ ہونا ہوتا تو پتا چلتے ہی جانے کی تیاری شروع کر دیتا۔ یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے تک چلا اور بہت سارے جلسوں میں شرکت ہوئی۔ اس درمیان بہت کچھ دیکھنے اور سننے کو ملا کہ اب ہمت ہی نہیں ہوتی کہ کسی جلسے کے قریب سے بھی گزروں۔ سالوں ہوئے کسی ایک جلسے میں بھی جانا نہیں ہوا۔

میں بات کر رہا تھا رٹا مارنے کی تو یہ ہمارے درمیان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مقررین کے پاس علم کی بہت کمی ہے۔ چند یاد کی ہوئی ریڈی میڈ تقریریں ہیں جنھیں یہ آگے پیچھے کر کے بیان کرتے رہتے ہیں۔ ایک بڑا طبقہ ان سے بیزار ہو چکا ہے اور ایسی محافل سے دور ہو چکا ہے۔ ایک مقرر جو کہ ایک مسجد کے امام ہیں اور ہر جمعہ آدھے گھنٹے کے قریب تقریر کرتے ہیں، ان سے مائکل جیکسن کے قبول اسلام کا واقعہ درجنوں مرتبہ سن کر یاد کر چکا ہوں لیکن وہ اب بھی یاد دہانی کرواتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مائکل جیکسن نے ایک حدیث پڑھی جسے پڑھ کر وہ مسلمان ہوا۔ جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ حدیث یہ ہے کہ جب ایک یہودی ہمارے نبی ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میرا بچہ کھو گیا ہے، تین دن سے لاپتا ہے... اسی درمیان ایک صحابی نے آ کر کہا کہ میں نے تمھارا بچہ فلاں باغ میں دیکھا ہے، یہ سن کر وہ یہودی فوراً چلنے لگا لیکن حضور اکرم ﷺ نے اسے روک لیا اور فرمایا کہ اے یہودی تو یہ بتا کہ جب اپنے بچے کو دیکھے گا تو کیا کَہ کر پکارے گا؟ اس نے کہا کہ بیٹا کَہ کر ہی پکاروں گا تو نبی کریم ﷺ نے منع فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ اسے بیٹا نہ کہنا کیوں کہ جہاں وہ بچہ ہوگا وہاں یتیم بچے بھی ہوں گے اور جب تو اسے بیٹا کَہ کر پکارے گا تو ان یتیم بچوں کو تکلیف پہنچے گی لہذا اسے بیٹا کَہ کر مت پکارنا... الخ

کہتے ہیں کہ مائکل جیکسن اس حدیث کو پڑھ کر مسلمان ہوا۔ یو کے کے ایک مشہور مقرر نے اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ ایک عیسائی کے قبول اسلام کا سبب بنا جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ اس حدیث پر تو یہاں ہم کچھ عرض نہیں کریں گے؛ فی الحال ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے مقررین کس طرح صرف وقت گزار رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کتابوں سے ان کا دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر تعلق ہے بھی تو ایسی کتابوں سے کہ جن میں بنی بنائی تقریریں ہوتی ہیں۔ مقررین کی یہ حالت بہت افسوس ناک ہے۔ اس سے عوام اہل سنت پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔ اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ 

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post