ہوس تھی دید کی معراج کا بہانہ تھا

واقعۂ معراج کے تعلق سے یہ اشعار کثرت سے پڑھے جاتے ہیں:

سہانی رات تھی اور پُرسکوں زمانہ تھا
اثر میں ڈوبا ہوا جذب عاشقانہ تھا
انھیں تو عرش پر محبوب کو بُلانا تھا
ہوس تھی دِید کی معراج کا بہانہ تھا

ان اشعار کو پڑھ کر کئی قوالوں نے یوٹیوب پر ڈال رکھا ہے جسے دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے! آپ اس سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ اشعار کتنے عام ہو چکے ہیں۔ ہم نے ان اشعار کے متعلق شرعی حکم جاننے کے لیے مفتیان کرام کی طرف رجوع کیا پھر جو معلومات حاصل ہوئیں، ہم انھیں پیش کر رہے ہیں۔

شارح بخاری، حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اللہ کی طرف ہوس کی نسبت کرنی گستاخی ہے، جس نے یہ شعر کہا ہے کہ:
ہوس تھی دِید کی معراج کا بہانہ تھا
اس پر اور جس قوال نے اسے گایا اور جن لوگوں نے سن کر پسند کیا اور وہ سب جنھوں نے اس شعر سے استدلال کیا ان سب لوگوں پر توبہ و تجدید ایمان اور بیوی والے ہیں تو تجدید نکاح بھی لازم ہے۔ رہ گیا یہ بہانہ کہ ہماری مراد ہوس بہ معنی شوق کے ہے، یہاں پر قابل قبول نہیں اس لیے وہ اردو میں بول رہے ہیں اور اردو میں ہوس کے معنی مطلقاً شوق کے نہیں بلکہ مذموم شوق کے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم۔
(فتاوی شارح بخاری، ج1، ص217،ملخصاً) 

ان اشعار میں ہوس کے علاوہ ایک اور قابل گرفت لفظ موجود ہے اور وہ ہے "بہانہ"، ہم نے جب مفتیان کرام سے اس کے متعلق سوال کیا تو متفقہ طور پر اس کے استعمال سے منع کیا گیا۔ اس لفظ پر بھی ہم اس لیے الگ سے کلام کر رہے ہیں کیوں کہ کئی لوگوں نے ان اشعار کو درست کرنے کے لیے لفظ "ہوس" کی جگہ "طلب" کو لگا دیا اور اس طرح پڑھنا شروع کر دیا:

طلب تھی دِید کی معراج کا بہانہ تھا

اس طرح پڑھنا بھی درست نہیں ہے۔ اللہ تعالی کی ذات کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال کیا جانا چاہیے جن میں کوئی برا معنی نہ پایا جاتا ہو۔ اسی وجہ سے میاں وغیرہ الفاظ کی بھی ممانعت آئی ہے۔

حضور تاج الشریعہ، علامہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رحمہ اللہ تعالی سے کئی الفاظ کے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا ان کا استعمال اللہ تعالی کی ذات کے لیے کیا جا سکتا ہے؛ ان الفاظ میں قربان، فدا، نچھاور، عاشق، حاضر و ناظر وغیرہ شامل تھے اور یہ مصرع بھی تھا کہ "ہوس تھی دِید کی معراج کا بہانہ تھا"۔
آپ رحمہ اللہ تعالی نے ہر لفظ کے استعمال کا شرعی حکم علاحدہ علاحدہ دلائل کے ساتھ بیان فرمایا اور جب اس مصرعے پر پہنچے تو فرمایا:
ہوس و بہانہ کا اطلاق اللہ تعالی کے لیے کفر ہے جس سے توبہ و تجدید ایمان و تجدید نکاح لازم ہے۔
(دیکھیں: فتاوی تاج الشریعہ، ج1، ص168، 169)

لفظ ہوس کے تعلق سے تو کئی فتاوی عام ہوئے ہیں لیکن ہم نے اپنی اس تحریر میں لفظ بہانہ پر بھی کلام کیا ہے جس کی وجہ ہم بیان کر چکے۔

ایک مفتی صاحب نے یہاں یہ بھی فرمایا کہ "کیا اللہ تعالی کو ہمارے نبی کی دید ایسے نہیں ہوتی تھی کہ معراج پر بلانا پڑا؟" 
یہ بات بھی غور کرنے والی ہے۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ ان اشعار کو پڑھنا درست نہیں ہے۔ عوام سے گزارش ہے کہ ایسے کسی بھی شعر کو پڑھنے اور پسند کرنے سے پہلے علماے اہل سنت کی طرف رجوع ضرور کریں۔ 

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post