میلاد النبی کی فضیلت پر بے اصل روایات

میلاد مصطفی ﷺ پر خوشیاں منانا اور اس پر رقم خرچ کرنا ایک جائز و مستحسن عمل ہے لیکن اس کی فضیلت بیان کرنے کے لیے کسی غیر ثابت روایت کو بیان کرنا ہرگز درست نہیں- میلاد النبی پر رقم خرچ کرنے کی فضیلت پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا قول بیان کیا جاتا ہے کہ "جو شخص میلاد پر ایک درہم خرچ کرتا ہے وہ کل قیامت کے دن جنت میں میرے ساتھ ہوگا" اس کے علاوہ بھی کچھ ملتے جلتے اقوال خلفاے راشدین اور دیگر بزرگانِ دین کے حوالے سے بیان کیے جاتے ہیں-

حضرت مولانا محمد عرفان مدنی حفظہ اللہ (المتخصص فی الفقہ الاسلامی) لکھتے ہیں کہ (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب) مذکورہ بالا روایت حدیث کی کسی مستند کتاب میں نہیں ملتی- یہ روایت "النعمۃ الکبری" کتاب میں موجود ہے اور یہ کتاب علامہ ابن حجر مکی علیہ الرحمہ کی طرف منسوب ہے، لیکن اصل کتاب "النعمۃ الکبری" جو علامہ ابن حجر مکی کی ہے، اس میں یہ روایت موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتاب جس میں یہ روایت ہے، یہ علامہ ابن حجر مکی کی اصل کتاب نہیں ہے-

حضرت علامہ عبد الحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ نے اس کے جو جوابات دیے ہیں ان میں سے چند پیش خدمت ہے:

(1) علامہ ابن حجر مکی دسویں صدی کے بزرگ ہیں تو لازمی امر ہے کہ انھوں نے مذکورہ بالا روایت صحابۂ کرام سے نہیں سنی لہذا وہ سند معلوم ہونی چاہیے جس کی بنا پر احادیث روایت کی گئی ہیں خواہ وہ سند ضعیف ہی کیوں نہ ہو یا ان روایات کا کوئی مستند ماخذ ملنا چاہیے- حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسناد دین سے ہیں، اگر سند نہ ہوتی تو جس کے دل میں جو آتا کَہ دیتا-

(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جو تم کو ایسی حدیثیں بیان کریں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمھارے آبا نے، تم ان سے دور رہنا- سوال یہ ہے کہ خلفاے راشدین رضی اللہ تعالی عنھم اور دیگر بزرگان دین کے یہ ارشادات امام احمد رضا بریلوی، شیخ عبد الحق محدث دہلوی، امام ربانی مجدد الف ثانی، ملا علی قاری، امام سیوطی، علامہ نبہانی رحمھم اللہ تعالی اور دیگر علماے اسلام کی نگاہوں سے کیوں پوشیدہ رہے؟ جب کہ ان حضرات کی وسعت علمی کے اپنے اور بیگانے سب ہی معترف ہیں-

(3) علامہ یوسف نبہانی رحمہ اللہ نے جواہر البحار کی جلد سوم میں علامہ ابن حجر مکی رحمہ اللہ کے اصل رسالے "النعمۃ الکبری" کی تلخیص نقل کی ہے جو خود علامہ ابن حجر مکی نے تیار کی تھی- اصل کتاب میں ہر بات پوری سند کے ساتھ بیان کی گئی تھی، تلخیص میں سندوں کو حذف کر دیا گیا ہے- ابن حجر فرماتے ہیں کہ میری کتاب واضعین کی وضع اور ملحد و مفتری لوگوں کے انتساب سے خالی ہے جب کہ لوگوں کے ہاتھوں میں جو میلاد نامے پائے جاتے ہیں ان میں اکثر موضوع اور جھوٹی روایات موجود ہیں- اس کتاب میں خلفاے راشدین اور دیگر بزرگان دین کے مذکورہ بالا اقوال کا نام و نشان تک نہیں ہے- اس سے نتیجہ نکالنے میں کوئی دشواری نہیں آتی کہ یہ ایک جعلی کتاب ہے جو علامہ ابن حجر مکی کی طرف منسوب کر دی گئی ہے- علامہ سید محمد عابدین شامی (صاحب رد المحتار) کے بھتیجے علامہ سید احمد عابدین شامی نے اصل نعمۃ کبری کی شرح نثر الدر علی مولد ابن حجر لکھی جس کے جس کے متعدد اقتباسات علامہ نبہانی نے جواہر البحار جلد سوم میں نقل کیے ہیں، اس میں بھی خلفاے راشدین کے مذکورہ بالا اقوال کا کوئی ذکر نہیں ہے-

(مجلہ البرہان الحق،جنوری تا مارچ 2012، ص9 تا 11)

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post