حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے مریدین کے لیے جو بشارتیں ارشاد فرمائی ہیں کہ میرا مرید بغیر توبہ کے نہ مرے گا اور میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں وغیرہ، اِن کو بیان کرتے ہوئے اعتدال کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے- ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام الناس کے سامنے یہ یا اس طرح کی باتوں کو اس انداز میں پیش نہ کیا جائے جس سے وہ میدان عمل میں ہتھیار ڈال دیں اور اسی امید پر نیک کاموں کو ترک کر دیں کہ ہمارے لیے تو جنت کی بشارت رکھی ہوئی ہے- اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان بشارتوں کو چھپایا جائے اور صرف خوف پیدا کرنے کے لیے ایسا طرز اپنایا جائے کہ ایک عام آدمی یہ سمجھ بیٹھے کہ اب تو ہمارا کچھ ہو ہی نہیں سکتا اور جہنّم ہمارے لیے تیار ہے- مختصر یہ کہ خوف و امید کے درمیان رہا جائے-
امام فقیہ ابواللیث نصر سمرقندی حنفی علیہ الرحمہ اسی امر کی بابت لکھتے ہیں کہ واعظ (مقرر) خوف اور امید دونوں کو اپنا موضوع سخن بنائے- صرف خوف یا صرف امید کے موضوع پر بیان نہ کرے؛ کیوں کہ ایسا کرنا ممنوع ہے-
(انظر: بستان العارفین للسمرقندی، ص58)
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here