بدر العلماء، حضرت علامہ مولانا بدر الدین احمد صدیقی علیہ الرحمہ، ڈاکٹر اقبال کے بارے میں لکھتے ہیں:
رضوی دار الافتاء بریلی شریف میں ایک استفتا پیش کیا گیا جس میں ڈاکٹر اقبال کے کچھ (کفریہ) اشعار کے متعلق سوال کیا گیا تھا تو مولانا مفتی محمد اعظم نے (فتوے میں) اُن اشعار کو کفریہ قرار دیا اور قائل (یعنی ڈاکٹر اقبال) کے بارے میں تحریر کیا کہ میں نے حضور مفتی اعظم ہند، علامہ مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ سے ڈاکٹر اقبال کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
بے شک اقبال سے خلاف شرع امور کا صدور ہوا ہے، کفریات تک اس سے صادر ہوئے ہیں مگر وہ اللہ تعالی کے محبوب، سرکارِ دو عالم ﷺ کی شان میں گستاخ و بے ادب نہیں تھا- بے شک جہالت کی بنا پر اس سے کفر تک پہنچانے والی غلطیاں ہوئی ہیں مگر آخر وقت میں مرنے سے پہلے اس کی توبہ بھی مشہور ہے اور جو اللہ کے محبوب کی شان میں گستاخ نہیں ہوتا اس کو توبہ کی توفیق ہوتی ہے-
اس کے بعد حضور مفتی اعظم ہند نے اقبال کا یہ شعر پڑھا:
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
گر با و نر سیدی تمام بو لہبی است
یہ شعر پڑھ کر حضرت کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے اور فرمانے لگے کہ اس شعر سے حضور ﷺ کے ساتھ اقبال کی سچی محبت ظاہر ہے- اس کے بعد فرمایا کہ اقبال کے بارے میں توقف چاہیے اور حضرت کا یہ فرمان ناسازی طبع سے پندرہ سولہ سال پہلے کا ہے اور حضرت کے اس فرمان پر ہمارا عمل ہے-
(فتاوی بدر العلماء، ص126، 229، ملخصاً)
خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہند، حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمہ اللہ تعالی، ڈاکٹر اقبال کے ایک شعر کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمیں حکم ہے کہ مومن کے کلام کو اچھے معنوں پر محمول کرنا واجب ہے-
(فتاوی شارح بخاری، ج2، ص486، ملتقطاً)
آپ رحمہ اللہ تعالی ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ اقبال کی توبہ مشہور ہے، بہت سے مستند عالموں نے اس کی (توبہ کی) روایت بھی کی ہے اس لیے اس کے بارے میں سکوت کیا جاتا ہے-
(فتاوی شارح بخاری، ج3، ص491، ملتقطاً)
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here