ضعیف روایات فضائل میں مقبول ہیں لیکن

جب ہم کسی روایت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ سخت ضعیف ہے یا موضوع ہے تو واعظین و خطبا کی طرف سے فوراً جواب دیا جاتا ہے کہ "فضائل میں یہ سب چلتا ہے" اور اس کے بعد ہم کچھ کہیں تو ہماری سنیت پر ہی حملہ شروع ہو جاتا ہے-

حضرت علامہ مولانا اسید الحق قادری بدایونی لکھتے ہیں کہ ہمارے مقررین نے اصول حدیث کا یہ ایک قاعدہ کہیں سے سن لیا ہے کہ "فضائل میں ضعیف حدیث بھی مقبول ہوتی ہے" اور اس قاعدے کے بے محل استعمال سے موضوع اور غیر معتبر روایات کے لیے اتنا بڑا دروازہ کھل گیا کہ ہر قسم کی روایتیں اس قاعدے کی دہائی دے کر بیان کی جانے لگیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قاعدہ اپنی جگہ درست ہے لیکن اس قاعدے کے اطلاق کا بھی ایک دائرہ ہے اور اس کے استعمال کے کچھ شرائط ہیں جن کو ائمہ و علما نے بیان کر دیا ہے لیکن جب یہ قاعدہ کم علم مقررین کے ہتھے چڑھا تو اس کا نتیجہ ضعیف پھر ضعیف شدید پھر منکر اور آخر میں موضوع روایات کی قبولیت کی صورت میں نکلا-
(مزید لکھتے ہیں کہ) جو احادیث واقعی قابل رد تھیں ہم نے ان کو بھی قبول کر لیا! 

(انظر: نقد و نظر، ص11، ملخصاً)

بات بات پر اس قاعدے کی رٹ لگانے والے ذرا ہوش کے ناخن لیں اور ہر روایت کو فضائل میں زبردستی دھکیلنے کا کام نہ کریں-

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post