پہلے پڑھائی بعد میں کھانا

چھٹی صدی کے مشہور حنبلی عالم، علامہ ابن عقيل حنبلی مطالعے کا ایسا شوق رکھتے تھے کہ کھانا کھانے میں بھی کوشش فرماتے کہ کم سے کم وقت لگے! 
آپ اکثر روٹی کھانے سے پرہیز کرتے اور وقت بچانے کے لیے چورے کو پانی میں بھگو کر استعمال کرتے؛ فرماتے کہ روٹی کھانے اور چبانے میں کافی وقت لگ جاتا ہے جب کہ اس (چورے) کے استعمال سے وقت زیادہ نکل آتا ہے-

(ملخصاً: طبقات حنابلہ بہ حوالہ علم و علما کی اہمیت، ص24، 27، ط مکتبہ اہل سنت)

علم نحو کے امام، خلیل بن احمد فرماتے تھے کہ وہ ساعتیں (گھڑیاں) مجھ پر بڑی گراں گزرتی ہیں جن میں مَیں کھانا کھاتا ہوں-

(ایضاً، ص23)

محدث کبیر، حضرت عبید بن یعیش علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے تیس سال تک رات کا کھانا نہیں کھایا، میری ہمشیرہ (بہن) میرے منھ میں لقمہ ڈالتیں اور میں حدیث پڑھتا اور لکھتا-

(خطبات ترابی، ج4، ص250)

حضرت احمد بن یحییٰ شیبانی بغدادی علیہ الرحمہ کو جب کوئی دعوت دیتا تو اس شرط پر قبول فرماتے کہ ان کے لیے کوئی ایسی چیز مہیا کی جائے جس پر مجلد کتابیں رکھ کر پڑھ سکیں-

(ایضاً، ص249)

اللہ اکبر! یہ وہ ہستیاں تھیں جنھیں وقت کی اہمیت معلوم تھی اور مطالعے سے غیر معمولی محبت تھی- دور حاضر میں دور دور تک اس کی مثال نہیں ملتی- اگر آج ہم دیکھیں تو کچھ لوگ صرف نیند کو بلانے کے لیے مطالعہ کرتے ہیں اور دوسری طرف جب بات فلم، ناٹک وغیرہ دیکھنے کی آ جائے تو آدھی رات تک اُلو کی طرح آنکھیں کھلی کی کھلی رہتی ہیں-

معاف کیجیے گا احقر کا مقصد کسی کو نیچا دکھانا یا کسی کا مذاق اڑانا ہرگز نہیں، میں تو فقط ایک حقیقت کو بیان کر رہا ہوں جس کے نمونے ہمیں اپنے ارد گرد اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں-

اللہ تعالی ہمیں وقت کی اہمیت سے واقفیت عطا فرمائے اور علم و عمل سے سچی محبت عطا فرمائے-

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post