باراتیوں کو اچھا کھانا کھلانے کے چکر میں لڑکی والے قرضے میں ڈوب گئے لیکن کچھ باراتیوں کو ابھی بھی شکایت ہے کہ انھیں پاپڑ نہیں ملا! کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں سلاد اور مچھلی کی زیارت نصیب نہیں ہوئی-
ولیمہ کی دعوت میں لاکھوں روپے خرچ ہو گئے مگر افسوس کہ پاپڑ، سلاد اور مچھلی وغیرہ کا مسئلہ حل نہیں ہو پایا!
ابھی اگر آپ دو تین سو لوگوں کو کھانے کی دعوت دیتے ہیں تو یہ بھول جائیے کہ آپ سب کو اچھی طرح کھلا پائیں گے! اچھی طرح کا مطلب یہ نہیں کہ جو آپ کو اچھا لگتا ہے بلکہ اس کا مطلب وہ بتائیں گے جنھیں پاپڑ نہیں ملے گا!
میزبان اگر اپنا کلیجہ بھی نکال کر مہمانوں کو تقسیم کر دے تو حال یہ ہے کہ کچھ لوگ کھانے کے بعد کہیں گے: کلیجہ تو دے دیا لیکن صحیح سے پکا ہوا نہیں تھا!
کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسا ہونے کی وجہ کیا ہے؟ آئیے ہم بتاتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے:
اس کی بنیادی وجہ ہے کھانے میں تکلف یعنی لوگوں کو وہ کھلانا جو آپ خود نہیں کھاتے؛ آپ جو کھاتے ہیں اس سے زیادہ قیمتی کھانے کا انتظام کرنا-
ہمارے اسلاف کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ کھانے میں تکلف کو پسند نہیں کرتے تھے، چناں چہ:
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ میرے بھائیوں میں سے میرے پاس کون آتا ہے کیوں کہ میں ان کے لیے تکلف نہیں کرتا، کھانے کو جو کچھ ہوتا ہے پیش کر دیتا ہوں- اگر میں ان کے لیے تکلف سے کام لوں تو ان کا آنا مجھے برا لگے گا-
(احیاء العلوم)
یہ جملہ قابل غور ہے کہ "اگر میں ان کے لیے تکلف سے کام لوں تو ان کا آنا مجھے برا لگے گا-" آج اگر کچھ لوگ مہمان کو بوجھ سمجھتے ہیں تو اس کی وجہ بھی تکلف ہے-
ایک بزرگ نے تو جب اپنے دوست کو تکلف کرتے دیکھا تو کہنے لگے کہ عام حالات میں نہ تو تم ایسا کھانا کھاتے ہو اور نہ میں، تو پھر ہم اکٹھے ایسا کھانا کیوں کھائیں؟ یا تو تم یہ تکلف چھوڑ دو یا میں تم سے ملنا چھوڑ دوں-
(احیاء العلوم)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ جو چیز ہمارے پاس نہیں اس کے بارے میں ہم مہمان کے لیے تکلف نہ کریں اور جو کچھ موجود ہو پیش کر دیں-
(التاريخ الکبیر للبخاری)
حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں کہ لوگوں نے تکلف کی وجہ سے ملنا چھوڑ دیا ہے کہ ان میں سے ایک اپنے بھائی کی دعوت کرتا اور تکلف سے کام لیتا جس کی وجہ سے وہ دوبارہ اس کے پاس نہ آتا-
(احیاء العلوم)
امام غزالی علیہ الرحمہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ جب آپ کو دعوت دی جاتی تو آپ فرماتے کہ میں تین شرائط کے ساتھ تمھاری دعوت قبول کروں گا:
(1) تم بازار سے کوئی نئی چیز نہیں لاؤ گے-
(2) گھر میں جو کچھ ہو وہ سارا پیش نہیں کرو گے-
(3) اپنے اہل و عیال کو بھوکا نہیں رکھو گے-
(ایضاً)
ہم تکلف میں اتنا بڑھ چکے ہیں کہ اب اسے ضروری سمجھنے لگے ہیں- اسی وجہ سے ہم لاکھوں روپے لٹانے کے بعد بھی شکایتیں سنتے ہیں- اگر ہم سادگی اپنائیں تو نتائج کچھ اور ہوں گے-
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here