کیا حال چال ہیں؟

امام ابو طالب مکی علیہ الرحمہ (م386ھ) لکھتے ہیں کہ پہلی زمانے میں جب لوگ آپس میں ملتے تو ایک دوسرے سے پوچھتے: کیا حال چال ہیں؟ اس سے مراد یہ پوچھنا ہوتا کہ "مجاہدہ، صبر میں اپنے نفس کے متعلق اور ایمان و علم یقین کی زیادتی میں دل کی حالت کے متعلق کچھ بتائیے" بسا اوقات وہ یہ مراد لیتے کہ "پروردگار عزوجل سے اپنے معاملے کی خبر دیجیے" اور یہ بھی بتائیے کہ "دنیا و آخرت کے امور کی انجام دہی میں آپ کی حالت کیسی ہے؟ ان میں زیادتی ہوتی ہے یا کمی؟" اس طرح وہ اپنے دلوں کے احوال کا تذکرہ کرتے، اپنے علوم پر عمل کی کیفیات بیان کرتے اور اس بات کا بھی ذکر کرتے اللہ تعالی نے انھیں حسن معاملہ کی دولت عطا فرمائی اور ان کے لیے کیسے کیسے مفاہیم عیاں (ظاہر) کیے- اس سے ان کا مقصود محض انعام باری تعالی کو شمار کرنا اور اس پر شکر بجا لانا ہوتا کہ ان کا یہ عمل ان کے لیے معرفت و حسن معاملہ میں زیادتی کا سبب بن جائے-

آج کل لوگ ایک دوسرے سے مل کر حال چال معلوم کرتے ہیں تو ان کی مراد امور دنیا اور اسباب حرص و ہَوا کے متعلق پوچھنا ہوتا ہے- اس کے بعد بندہ شکایت اور ناراضی کا اظہار کرتا ہے اور یوں وہ اپنے نفس کے ساتھ ساتھ اپنی بد اعمالیاں تک بھول جاتا ہے-

(قوت القلوب، اردو، ج2، ص14، ملخصاً و ملتقطاً)

اب موجودہ زمانے میں تو حال چال پوچھنے سے یہی مراد لیا جاتا ہے کہ کام کیسا چل رہا ہے؟، بیوی بچے کیسے ہیں؟، تجارت میں فائدہ ہوا یا نہیں؟، نوکری ملی یا نہیں؟ یا پھر گاڑی خریدی یا نہیں؟ 
بہت کم لوگ ایسے بچے ہیں جو کسی سے یہ جاننے کے لیے حال چال پوچھتے ہوں کہ تمھارے اور رب کے درمیان کا معاملہ کیسا ہے؟ علوم پر عمل میں کامیابی مل رہی ہے نہیں؟ نفس سے جنگ کی کیا کیفیت ہے؟ 
کتنا اچھا ہوتا جو ہم ایک دوسرے سے حال چال صرف اسی لیے پوچھتے تاکہ اپنے اپنے دلوں کے حالات کو بیان کر سکیں، مختلف کیفیات پر تبادلۂ خیال کر سکیں اور ایک دوسرے کے لیے آخرت کی تیاری میں آسانی کی دعا کر سکیں.......، اے کاش ایسا ہو.....، 

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post