دو رجسٹر

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، آپ کے ہاتھوں میں دو کتابیں تھیں- آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ یہ دو کتابیں کس چیز سے متعلق ہیں؟ 
ہم نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ ﷺ! آپ ہی ہمیں بتائیں-
حضور ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا کہ یہ کتاب رب العالمين کی طرف سے ہے جس میں اہل جنت کے نام ہیں، ان کے آباؤ اجداد اور قبیلوں کے نام ہیں پھر اس کے آخر میں مہر لگا دی گئی ہے- ان میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا اور کمی نہیں ہو سکتی-
اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ میں موجود کتاب کے بارے میں اسی طرح کے الفاظ اہل جہنم کے متعلق ارشاد فرمائے-

(ملخصاً و ملتقطاً: الجامع الترمذی، باب ماجاء ان اللہ کتب کتابا لاھل الجنة و اھل النار، ح2141)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک کتاب میں تمام جنتیوں اور دوسری کتاب میں جہنمیوں کے نام، ان کے باپ دادوں کے نام اور ان کے قبیلوں کے نام کیسے موجود ہو سکتے ہیں حالانکہ وہ کتابیں حضور ﷺ کے ہاتھوں میں تھیں اور صحابہ کرام نے انھیں دیکھا بھی لہذا ظاہر ہے کہ کتاب کا حجم مختصر ہوگا یعنی کتاب کی لمبائی، چوڑائی اور موٹائی مختصر ہوگی جب کہ جنتیوں اور جہنمیوں کے ناموں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ایک مختصر سی کتاب میں عقلاً نہیں آ سکتے اور حضور ﷺ کا فرمان بھی غلط نہیں ہو سکتا.........! 

حضرت علامہ سید عبد العزيز دباغ رحمہ اللہ تعالی (م1131ھ) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں کتابت سے مراد تحریری شکل نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺ نے کتاب کے اوراق کی طرف توجہ فرمائی تو اہل جنت و جہنم کے تمام نام آپ ﷺ کو دکھائی دیے- اس کی مزید وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ جس وقت حضور ﷺ کسی بھی چیز پر نظر مبارک ڈالتے ہیں تو آپ کے سامنے سے تمام حجابات اٹھا لیے جاتے ہیں- اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو کامل ترین روحانی بصیرت عطا فرمائی ہے اور جب یہ روحانی بصیرت آپ کی ظاہری بصارت کے ساتھ مل جائے تو آپ ﷺ کی ظاہری آنکھوں کے سامنے سے بھی تمام حجابات ہٹ جاتے ہیں اس لیے آپ ﷺ کسی بھی محجوب چیز کو اسی شے میں دیکھ لیتے ہیں جو اس وقت آپ ﷺ کے سامنے موجود ہو- بالفرض اگر آپ کے سامنے کوئی دیوار موجود ہو تو آپ دیوار میں (بھی) اس چھپی چیز کا مشاہدہ فرمائیں گے اور اگر اس وقت آپ کا دست اقدس آپ کے سامنے ہوگا تو وہی چیز آپ کو اپنے ہاتھ میں نظر آئے گی اور اگر آپ کے سامنے کوئی کاغذ موجود ہو تو وہ چھپی چیز آپ کو کاغذ میں نظر آئے گی-

(ملتقطاً: الابریز، سید عبد العزيز دباغ رحمہ اللہ تعالی، ص97، 98)

مذکورہ تشریح کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ کتابیں کسی عام انسان کو دے دی جائیں تو وہ اس میں اہل جنت و جہنم کے ناموں کو نہیں دیکھ پائے گا-
کتاب تو ہے پر دیکھنے والی آنکھ بھی چاہیے-

اور کوئی غیب کیا تم سے نِہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post