جہیز کی شرعی حیثیت

مسلمانوں میں یہ رواج عام ہو گیا ہے کہ نکاح سے پہلے لڑکی والوں سے جہیز کی مانگ کی جاتی ہے- اب تو بالکل کھل کر کہا جاتا ہے کہ ہمیں ایک گاڑی اور ایک لاکھ روپے چاہیے! لڑکی والوں کی جان اتنے میں بھی نہیں چھوٹتی بلکہ سیکڑوں باراتیوں اور رشتے داروں کے نخرے بھی اٹھانے پڑتے ہیں جس میں لاکھ روپے خرچ ہونا عام بات ہے-

ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ لڑکی والے ایک لاکھ روپے دینے کو تیار ہیں لیکن گاڑی دینے کی طاقت نہیں رکھتے تو اس وجہ سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے! اسے ہم نکاح نہ کہ کر سودا کہیں تو زیادہ اچھا لگے گا- 

شریعت میں جہیز کی مقدار طے کرنا بلکہ مقدار نہ بھی معین ہو کہیں شادی کرتے وقت جہیز کا مطالبہ ہی کرنا یا شادی کے وقت مطالبہ کرنا یا شادی ہو جانے کے بعد مطالبہ کرنا، یہ سب حرام ہے- یہ رشوت مانگنا ہے اور جو مال لیا مال حرام لیا؛ فرض ہے کہ اسے واپس کرے، اس کو استعمال میں لانا حرام ہے-

شامی میں ہے:
جعلت المال علی نفسھا عوض عن النکاح و فی النکاح العوض لا یکون علی المراۃ (ج5، ص701) 

(انظر: مقالاتِ شارح بخاری، ج1، باب سوم، جہیز کی شرعی حیثیت، ص387)

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post