لڑکے والوں کی طرف سے ایک لاکھ روپے اور ایک گاڑی کی مانگ کی گئی ہے جس کی وجہ سے لڑکی کے گھر والوں کا چہرہ دیکھنے لائق ہے- یہ وہی لڑکی والے ہیں جو چند سالوں پہلے لڑکے والے تھے- جب یہ لڑکے والے تھے تب انھوں نے بھی ایک لاکھ روپے اور گاڑی کی مانگ کی تھی لیکن جب آج کسی نے ان سے مانگا ہے تو چہرے پر بارہ بجے ہوئے ہیں-
کتنی عجیب بات ہے نا کہ جب لینا تھا تب یہ غلط نہیں تھا پر جب دینے کی باری آئی تو یہ برا لگ رہا ہے- سچ تو یہ ہے کہ لینے والے اور دینے والے میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں ہی دولت کے بھوکے ہیں-
جن لوگوں نے اپنے لڑکے کی شادی میں دوسروں کا مال لوٹا ہے انھیں تو اس بات کا حق ہی نہیں ہے کہ اپنی باری میں اس لین دین کو غلط کہیں؛ اور جو لوگ آج دے کر، کل لینے کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں-
اگر آپ واقعی اسے غلط سمجھتے ہیں تو شروعات آپ کو ہی کرنی ہوگی- آپ اس کے خلاف تنہا کھڑے ہو جائیں اور دوسروں کے لیے خود کو امید کی ایک کرن بنا دیں-
اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر ہم وہی کہیں گے کہ "لیا ہے تو دو شور مچاتے کیوں ہو"
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here