ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا:
عورت کا حق مہر چالیس اوقیہ سے زیادہ نہ کرو ورنہ جو زیادہ ہوگا اسے بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا۔
ایک عورت بولی:
اے امیر المومنین! یہ آپ کیا فرما رہے ہیں حالانکہ قرآن پاک میں تو اللہ تعالیٰ یوں ارشاد فرماتا ہے کہ اگر تم ایک بی بی کے بدلے دوسری بدلنا چاہو اور اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔
یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا:
"عورت نے صحیح کہا اور ایک مرد نے خطا کی۔"
(کنز العمال، کتاب النکاح، ج8، ص226، ح45792 بہ حوالہ فیضان فاروق اعظم)
اللہ اکبر! یہ تھے اللہ والے جو اصلاح کے درمیان نفس کو حائل نہیں ہونے دیتے تھے۔ آج تو حالات یہ ہیں کہ اگر کسی کو اس کی غلطی بتائی جائے تو بجائے فوراً اپنی اصلاح کرنے کے، پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اسے غلط کہنے والا ہے کون اور پھر اگر وہ چھوٹا ہوا تو اسی پر برس پڑتا ہے۔
خامیاں بتانے والا کوئی بھی ہو، اس سے مطلب نہیں بلکہ اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے آپ کو آگاہ کیا ورنہ کیا معلوم کہ وہ خامیاں آپ کو کہاں کتنا نقصان پہنچا دیتیں۔
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here