ایک عورت کو یہ کَھٹکا محسوس ہوا کہ اُس کا وَلی (والد، بھائی، چچا وغیرہ) ایسی جگہ اس کا نکاح کردے گا جہاں اُسے پسند نہیں۔
تو اُس خاتون نے دوانصاری بزرگوں کی طرف پیغام بھیجا (کہ میری مدد کرو، میں وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی)۔
انھوں نے کہا:
تم ڈرو نہیں، حضرت خَنْسا بِنت خِذام رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے والد نےاُن کا نکاح، اُن کی مرضی کے خلاف کیا تھا جسے رسولِ پاک ﷺ نے مُسترد کر دیا۔
(تو پھر انھوں نے اپنی پسند کے شخص حضرت ابولبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کرلیا)
(انظر: صحیح البخاری، رقم 6969)
اللہ کرے ایسے بزرگ آج کی بیٹیوں، بہنوں کو بھی میسر آجائیں!!
آج کل تو کوئی لڑکی بھول کر بھی اپنے چچا، تایا، ماموں، خالو وغیرہ سے کَہ دے کہ میں وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی جہاں میرے گھر والے کر رہے ہیں؛ تو اس بے چاری کی شامت آجاتی ہے۔
اور تو اور، اگر کوئی لڑکی کسی مذہبی رہنما:
عالم، مفتی، پیر، امام وغیرہ کے سامنےاپنا عریضہ پیش کردے تو وہ بھی اس کی مدد کرنے کے بجائے، اُسے قائل کرنے میں دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں۔
اللہ کرے ہم اُسوۀ رسول و عمل صحابہ سے یہ سبق بھی سیکھ جائیں کہ مرضی سے شادی کرنا لڑکی کا حق ہے۔
اسے اس کا حق دلوانا چاہیے نہ کہ حق چھیننے میں مدد کرنی چاہیے۔
علامہ قاری لقمان شاہد حفظہ اللہ تعالی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here