بیویاں اور خرچے

ہم اپنی تنخواہ سے ایک بیوی کا چہرہ سیدھا نہیں کر پاتے تو سوال اٹھتا ہے کہ دو، تین یا چار بیویوں کے خرچے کہاں سے اٹھا سکیں گے؟ 

جواب جاننے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے گھروں کے جو خرچے ہیں، کیا وہ فضول کے خرچے تو نہیں ہے؟ ہم کہنے کو تو خود کو غریب کَہ دیتے ہیں لیکن ہمارے خرچے رئیسوں سے کم نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں نا کہ پاؤں اتنا ہی پھیلانا چاہیے جتنی لمبی چادر لیکن ہم پاؤں سمیٹنے کی بجائے چادر کو لمبا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

ایک تو یہ ہے کہ ہماری تنخواہ تین چار گنا بڑھ جائے، جو کہ کھلی آنکھوں میں دکھائی دینے والا ایک خواب ہے اور دوسرا یہ کہ ہم خرچے کم کر دیں اور یہ ہمارے بَس میں ہے۔ 

دنیا والوں کے ساتھ بھاگنے کے چکر میں مت رہیں بلکہ اپنا راستہ اور اپنی رفتار بنائیں۔ اس کے لیے آپ کو کافی سمجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا اور سب سے زیادہ جس کی ضرورت آپ کو پڑے گی وہ ہے گھر میں "دینی ماحول" اور ہماری سمجھ کے مطابق یہ ایک واحد حل ہے خرچے کم کرنے کا ورنہ تنخواہ میں دس گنا اضافہ بھی کام نہ دے گا۔

جو گھر میں دینی ماحول ہو تو آپ کی بیوی ایک دو وقت کی بھوک بھی برداشت کر لے گی لیکن آپ کو پریشان نہیں کرے گی اور اگر وہی ماحول ہو جو ابھی چل رہا ہے تو پھر آپ پر مقدمہ (Case) بھی درج ہو سکتا ہے۔

اگر آپ نے یہ ذہن بنا رکھا ہے کہ دنیا کے ساتھ ساتھ چلنا ہے تو پھر آپ کے لیے چار شادیاں اور زیادہ بچے بالکل نہیں ہیں۔ آپ دو بچوں کو کمشنر، ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ بنا کر اپنا فرض ادا کریں جو اصل میں مقابلہ ہے اور ایک سے زیادہ شادیوں کا خیال دل و دماغ سے ڈلیٹ (Delete) کر دیجیے۔

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post