منگول، رافضی اور خلافت عباسیہ
کہا جاتا ہے کہ تاتاریوں (منگولوں) کے فتنے سے بڑھ کر دنیا میں کوئی فتنہ وقوع میں نہیں آیا۔ ان ظالموں نے جب بغداد پر حملہ کیا تو تقریباً اٹھارہ لاکھ لوگوں کو قتل کر دیا! اس کی مختصر کیفیت یہ تھی کہ جب چنگیز خان کے پوتے ہلاکو نے بغداد پر لشکر کشی کی تو اس وقت بغداد میں خاندان عباسیہ کا آخری خلیفہ معتصم باللہ مسند خلافت پر متمکن تھا۔
خلیفہ معتصم باللہ کا وزیر رافضی تھا جس کے دل میں اسلام اور اہل اسلام (اہل سنت) کے لیے بغض تھا۔ اس رافضی وزیر نے پوشیدہ طور پر منگولوں سے ہاتھ ملایا اور خط کے ذریعے بغداد پر حملہ کرنے کی ترغیب دی۔ ہلاکو خان کے دربار میں بھی ایک رافضی تھا جس نے اس رافضی وزیر کا ساتھ دیا۔
جب ہلاکو بغداد پر چڑھائی کے لیے آیا تو اس رافضی وزیر نے صلح کا مشورہ دیا اور کہا کہ میں صلح کی شرائط ٹھہرانے جاتا ہوں۔ وہ گیا اور واپس آ کر خلیفہ سے کہا کہ اے امیر المومنین! ہلاکو خان کی دلی خواہش ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی آپ کے بیٹے سے کرے اور آپ اس کی اطاعت تسلیم کریں تو وہ لشکر لے کر واپس چلا جائے گا اور مسلمان خون ریزی سے بچ جائیں گے۔
خلیفہ امن کے لیے نکلا اور وہاں پہنچا تو ایک خیمے میں اتارا گیا۔ وزیر نے شہر میں آ کر علما و فقہا سے کہا کہ آپ بھی خلیفہ کے بیٹے کی شادی میں شرکت فرمائیں، چناں چہ وہ بغداد سے نکلے اور قتل کر دیے گئے۔ شادی کے بہانے ایک کے بعد دوسرے گروہ کو بلایا جاتا اور قتل کر دیا جاتا۔ معزز لوگوں کو قتل کرنے کے بعد خلیفہ کو قتل کیا پھر بغداد شہر پر چڑھائی کر دی اور لاکھوں لوگوں کا خون بہایا۔ تیس دن تک قتل کا سلسلہ جاری رہا! پھر مسجدوں میں شراب بہائی گئی اور اذان پر پابندی لگا دی گئی۔
(ملخصاً: علامہ نور بخش توکلی، سیرت رسول عربی)
یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ تاریخ کی ایک جھلک ہے جس میں ہمارے لیے کئی اسباق موجود ہیں۔
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here