ایک دن اور گزر گیا


دن گزرتے جا رہے ہیں! 

ہر دن آتا ہے چلا جاتا ہے، 

ہمیں لگتا ہے کہ آج کے دن ہم نے کئی کام کیے اور ترقی کے منازل طے کر لیے پر سچ یہ ہے کہ ایک دن اور گزر گیا! 


اگر ہم کسی کا ساتھ نہ پا سکے تو اس کے بغیر ایک دن گزر گیا، اور اگر ہم کسی کے ساتھ تھے تو ساتھ رہنے کی مدت میں ایک دن کم ہوگیا! 


اگر خوش تھے تو خوشی کا ایک دن اور گزر گیا اور غم میں تھے تو بھی ایک دن اور گزر گیا! 


خوشی کے پلوں کا گزر جانا قابلِ افسوس اور غم کے دنوں کا گزر جانا بھی قابلِ افسوس ہے کہ ایک دن اور گزر گیا! 


ہم رکے ہوئے ہیں، ہم تھم سے گئے ہیں پر دن ہمارے انتظار میں نہیں وہ نظروں کے سامنے سے گزر جائے گا۔

ہم آنکھیں بند کر لیں پر حقیقت ہے کہ آج ایک دن اور گزر گیا! 


جب گزرنا ہی ہے ان دنوں کو تو پھر ہم کیوں انھیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں؟ 

نہ خوشی کے لمحات کو پکڑ سکتے ہیں نہ غم کی گھڑیوں کو روک سکتے ہیں!

بس گزر رہا ہے، گزرتا ہے، گزر جائے گا! 


حساب کوئی نہیں کہ وقت کسے کیا سے کیا کر گیا

بس سچ ہے کہ آج ایک دن اور گزر گیا۔


عبد مصطفیٰ

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post