مومن کی رفتار 


اقبال مرحوم کا ایک دعائیہ‌ کلام  ہے ؎


یا ربّ! دلِ مُسلِم کو وہ زندہ تمنا دے 

جو قلب کو گرما دے ، جو رُوح کو تڑپا دے 

 

اِس کا ایک شعر ہے ؎


بھٹکے ہوئے آہُو کو پھر سُوئے حَرَم لے چَل 

اِس شہر کے خُوگر کو پھر وُسعتِ صَحرا دے 


فارسی زبان میں ہَرَن کو آہُو کہتے ہیں ۔

آہو کئی خوبیوں کا مالک ہوتا ہے، جن میں ایک تیز رفتاری بھی ہے  ۔

کہا جاتا ہے :

 ہَرن 90 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بھی دوڑ سکتا ہے ۔ ( واللہ اعلم ) 


تیز دوڑنا اگرچہ ہَرن کی فطرت کاحصہ ہے ، لیکن اسے تیز دوڑنے کے لیے صحرا ( یعنی ایسا کھلا میدان ) چاہیے ، جہاں نہ کوئی درخت ہو ، نہ کوئی فصل ہو ، نہ کوئی روک رکاوٹ ۔۔۔۔۔۔۔


ہُوا یہ کہ:

 ہرن صحرا کا راستہ‌ بھول کر شہر میں آگھسا ، یہاں اِسے طرح طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ، جنھوں نے اس کی دوڑ کوتاہ کردی ۔

یہ بے چارہ دوڑنا چاہتا تھا ، لیکن شہر کی بندشوں میں دوڑ نہیں سکتا تھا ۔


آپ بخوبی جانتے ہیں کہ گاڑی جتنی مرضی تیز رفتار ہو ، روڈ کے بغیر دوڑ نہیں سکتی ؛ اُس کی تیز رفتاری سے اُسی صورت محظوظ ہوا جا سکتا ہے جب وہ صاف ستھرے روڈ پر فراٹے بھرے ، راستے میں کوئی روک رکاوٹ نہ ہو ‌۔


اب شعر سمجھیے!


مسلمان ایک ہَرَن کی طرح تھا ، جس کی دنیا جہان فتح کرنے کی رفتار بہت تیز تھی ، لیکن یہ بھٹک گیا ۔

 صحراے حرم ( اسلامی فکر کے میدان ) کی طرف جانے کے بجائے ، شہر ( فرنگی فکر ) کی طرف جا نکلا ، جہاں اِسے طرح طرح کی رکاوٹیں ( فیشن ، عیاشی ، بے راہ روی ، مایوسی ، غلامی ، بزدلی وغیرہ ) پیش آئیں ، جنھوں نے اس کی دوڑ کوتاہ کردی‌۔

افسوس اس پر بھی ہے کہ ایسا کیوں ہوا ! لیکن..........

اس سے زیادہ افسوس اس پر ہے کہ:


 یہ آہُو شہر کا خُوگر ( عادی ) ہو کر ، اپنے صحرا کا راستہ بھول بیٹھا ۔


اے میرے رب! میں اس بھٹکے ہوئے آہو کی فریاد کس سے کروں ...... !!


میرے مالک ! تجھی سے عرض ہے کہ‌ اِس ؎


بھٹکے ہوئے آہُو کو ، پھر سُوئے حَرَم لے چل 

اس شہر کے خُوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے 


علامہ قاری لقمان شاہد حفظہ اللہ تعالی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post