نظامِ تعلیم کے متعلق اعلیٰ حضرت کے نظریات


(1) عظیمُ الشّان مَدارِس کھولے جائیں، باقاعدہ تعلیمیں ہوں۔


(2) طَلَبہ کو وظائف ملیں کہ خواہی نخواہی گرویدہ (یعنی مائل) ہوں۔

 

(3) مُدَرِّسوں کی بیش قرار (یعنی معقول) تنخواہیں اُن کی کارروائیوں پر دی جائیں کہ لالچ سے جان توڑ کر کوشش کریں۔


(4) طبائع طَلَبہ(یعنی طَلَبہ کی صلاحیتوں) کی جانچ ہو جو جس کام کے زیادہ مناسب دیکھا جائے معقول وظیفہ دے کر اُس میں لگایا جائے۔ یوں اُن میں کچھ مُدَرِّسین بنائے جائیں،  کچھ واعظین، کچھ مصنّفین، کچھ مناظرین، پھر تصنیف و مُناظَرہ میں بھی توزیع (تقسیم کاری) ہو، کوئی کسی فن پر کوئی کسی پر۔


(5) اُن میں جو تیّار ہوتے جائیں تنخواہیں دے کر ملک میں پھیلائے جائیں کہ تحریراً وتقریراً ووَعْظاً و مُناظَرَۃً اِشاعتِ دین و مذہب کریں۔


(6) حمایتِ (مذہب) و رَدِّ بد مذہباں میں مُفید کُتُب و رسائل مُصنّفوں کو نذرانے دے کر تصنیف کرائے جائیں۔


(7) تصنیف شدہ اور نو تصنیف رسائل عمدہ اور خوش خط چھاپ کر ملک میں مفت شائع کئے جائیں۔


(8) شہروں شہروں آپ کےسفیرنگران رہیں، جہاں جس قسم کے واعِظ یا مُناظِر یا تصنیف کی حاجت ہو آپ کو اطلاع  دیں۔ آپ سر کوبیِ اعداء (یعنی دشمنوں کے رد) کے لئے اپنی فوجیں، میگزین رسالےبھیجتے رہیں۔


(9) جو ہم میں قابل کار، موجود اور اپنی معاش میں مشغول ہیں وظائف مُقرّر کرکے فارِغُ البال(یعنی خوشحال) بنائے جائیں، اور جس کام میں اُنہیں مہارت ہو لگائے جائیں۔


(10)  آپ کے مذہبی اخبار شائع ہوں اور وقتاً فوقتاً ہر قسم کے حمایت ِمذہب میں مضامین تمام ملک میں بقیمت و بلا قیمت روزانہ یا کم از کم ہفتہ وار پہنچاتے رہیں۔ 


(فتاوی رضویہ،ج 29،ص599)


عبد مصطفیٰ دانش شاہان

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post