اکیلے زندگی کا سفر
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر لوگ تنہا سفر کرنے کے اس نقصان کو جان لیتے جسے میں جانتا ہوں تو کوئی سوار رات کو تنہا سفر نہ کرتا۔
(بخاری، 2998)
یہاں سوار کو تنہا سفر سے منع کیا گیا ہے تو ایک سوال یہ ہے کہ کیا جو پیدل ہو وہ سفر کر سکتا ہے؟
علما فرماتے ہیں کہ جو پیدل ہو اس کے لیے تو زیادہ منع ہوگا کہ اکیلا سفر کرے کیونکہ سوار کو سواری (کے جانور) سے انس (محبت، راحت) حاصل ہوتا ہے اور پیدل انس سے خالی ہوتا ہے۔
یہ تو رات کا سفر ہے کہ اکیلے کرنا اچھا نہیں پھر زندگی کا سفر جس میں تاریکیوں سے بھرے رستے ہیں، ان کو اکیلے پار کرنا کس طرح مناسب ہو سکتا ہے،
اکیلا انسان اکیلا ہوتا ہے، اگر ایک ہمسفر ہو تو راستے آسان ہو جاتے ہیں۔
علما لکھتے ہیں کہ اکیلے پیدل سفر کرنے والا اگر راستے میں سو جائے تو اس کو جگانے والا کوئی نہیں ہوگا اور اگر اس پر کوئی مصیبت آجائے تو مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
(دیکھیے نعم الباری شرح صحیح بخاری)
خاص لوگوں کی بات تو جدا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہوتے، انھیں اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے جیسا کہ حضور نے سفر کی دعا فرمائی کہ اے اللہ سفر میں تو میرا ساتھی ہے۔
(ملسم)
عام لوگوں کو ہر سفر میں ہمسفر کی ضرورت ہے،
ایمان و عقیدے کے لیے صالحین کا ساتھ چاہیے،
ایک بچے کو والدین کا ساتھ چاہیے،
پروان چڑھنے کے لیے اچھی صحبت چاہیے،
ایک مرد کو ایک عورت کے ساتھ کی ضرورت ہے،
ایک عورت کو ایک مرد بطورِ ہمسفر چاہیے،
کبھی ایک دوست تو کبھی ایک دشمن کی شکل میں بھی ہمسفر کی ضرورت ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اس زندگی کے سفر کو آسان فرمائے۔
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here