محبت کی حقیقت اور دل کی حالت
حضرت سیدنا شبلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
ایک دفعہ میں نے ایک مجذوب (یعنی مجنون، دیوانہ) دیکھا جسے بچے پتھر مار رہے تھے، اس کا چہرہ اور سر لہولہان اور شدید زخمی تھا!
حضرت سیدنا شبلی علیہ الرحمہ ان بچوں کوڈانٹنے لگے تو انھوں نے کہا:
''ہمیں چھوڑ دو! ہم اسے قتل کریں گے کیوں کہ یہ کافرہے! اور کہتا ہے کہ اس نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے اور وہ اس سے کلام بھی کرتا ہے۔''
تو آپ علیہ الرحمہ نے بچوں سے فرمایا:
اسے چھوڑدو، پھرآپ رحمۃاللہ تعالی علیہ اس کے پاس تشریف لے گئے تو وہ مسکرا کر باتیں کر رہا تھا اور کہنے لگا:
''اے خوبصورت نوجوان! آپ کااحسان ہے، یہ بچے تو مجھے برابھلا کَہ رہے تھے۔''
اس کے بعد اس نے پوچھا: ''وہ میرے متعلق کیا کَہ رہے تھے؟'' آپ رحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو بتایا: ''وہ کہتے ہیں کہ تم اپنے رب عزوجل کو دیکھنے کا دعوی کرتے ہو اور یہ کہ وہ تم سے کلام بھی کرتا ہے۔''
یہ سن کراس نے ایک زوردار چیخ ماری، پھرکہنے لگا:
''اے شبلی! حق تعالی کی محبت وقربت سے مجھے سکون ملتا ہے، اگر لمحہ بھر بھی وہ مجھ سے چھپ جائے تو میں درد فراق سے پارہ پارہ ہو جاؤں۔''
حضرت سیدنا شبلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میں سمجھ گیا کہ یہ مجذوب اخلاص والے خاص بندوں میں سے ہے۔
میں نے اس سے پوچھا: ''اے میرے دوست! محبت کی حقیقت کیا ہے؟''
تواس نے جواب دیا:
''اے شبلی! اگر محبت کا ایک قطرہ سمندر میں ڈال دیا جائے(تووہ خشک ہوکر) یا پہاڑ پر رکھ دیا جائے تو وہ غبارکے بکھرے ہوئے باریک ذرے ہو جائیں! لہذا اس دل پر کیسا طوفان گزرے گا جس کو محبت نے اضطراب اور گریہ وزاری کا لباس پہنا دیا ہو، اور سخت پیاس نے اس کے اندر جلن اور حسرت دیدار کو بڑھا دیا ہو۔''
(الروض الفائق، ص35)
اللہ اللہ!
واقعی محبت کوئی عام شے نہیں، یہ عاشق کو جلا دیتی ہے۔
اگر محبت کا ایک قطرہ سمندر کو خشک کر سکتا ہے اور پہاڑوں کو بکھرنے پر مجبور کر سکتا ہے تو پھر دل کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے وہ الفاظ سے کس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here