حریص پر رکنا
بعض لوگ قرآن پڑھتے وقت سورۂ توبہ کی آخری آیات میں لفظ حریص پر رک جاتے ہیں اور پھر یہاں سے جاری کرتے ہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ علماے کرام نے اس سے منع فرمایا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقام پر رکنے سے معنی میں تغیر آجاتا ہے؛ آپ خود ملاحظہ فرمائیں۔
آیت یہ ہے:
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
(سورۂ توبہ:128)
اگر اس آیت کو پڑھتے وقت حریص پر رک جائیں تو معنی یہ ہوگا بے شک تمھارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمھارا مشقت میں پڑنا گراں ہے، حریص ہیں!
اگر مکمل آیت پڑھیں جائے تو بات مکمل ہوتی ہے کہ نبی کریم اپنی امت کی بھلائی کے لیے حریص ہیں لیکن وقفہ کرنے معنیٰ یہ ہوتا ہے کہ "وہ حریص ہیں" اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پر رکنے سے منع کیا گیا ہے۔
علامہ مفتی اختر حسین قادری سے سوال کیا گیا کہ زید حالت نماز میں اس آیت کو پڑھتے ہوئے حریص پر وقف کرتا ہے جب کہ وقف کے قاعدے سے اس جگہ وقف قبیح ہے تو ایسا کرنے سے نماز ہوگی یا نہیں؟
آپ جواب میں لکھتے ہیں کہ ہر آیت پر وقف جائز ہے اگرچہ آیت "لا" ہو البتہ اگر وقف کرنے میں کہیں معنی میں تغیر فاحش ہو رہا ہے تو قبیح ہے مگر نماز بہرحال ہوجائے گی،
فتاوی عالمگیری میں ہے:
اذا وقف فی غیر موضع الوقف او ابتدا فی غیر موضع الابتداء ان لم یتغیر بہ تغیرا فاحشا لا تفصد صلاتہ بالاجماع بین علمائنا ھکذا فی المحیط وان تغیر بہ المعنی تغیرا فاحشا لا تفسد صلاتہ عند علمائنا و عند البعض تفسد صلاتہ والفتوی عدم الفساد لکل حال ھکذا فی المحیط (جلد1، ص81)
اسی طرح بہار شریعت میں بھی ہے:
زید کا "حریص" پر وقف اگرچہ باقاعدۂ قرأت قبیح ہے مگر نماز ہو جائے گی۔
واللہ اعلم
(دیکھیے، فتاویٰ علیمیہ، ج1،ص143)
حضرت علامہ مفتی وقار الدین قادری رحمۃ اللہ تعالی اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ "حریص" پر رکنا جائز نہیں، "علیکم" پر وقف کرنا چاہیے "حریص علیکم" کے معنیٰ ہیں وہ تمھاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ہیں اور اگر حریص پر جب وقف کیا جائے گا اس کا معنیٰ یہ ہوگا کہ حضور حریص یعنی لالچی ہیں، یہ بات غلط ہے اور شان نبوت کے خلاف ہے۔
(دیکھیے، وقار الفتاویٰ، ج2، ص86)
عبد مصطفیٰ آفیشل
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here