آج فاطمہ چادر ہٹا دے گی ۔ ایک روایت 

ایک لمبی روایت ہے جس کا نام میں نے "بیس منٹ والی روایت" رکھا ہے کیوں کہ اسے بیان کرنے والے ہمارے مقررین تقریباً اتنا وقت تو لے ہی لیتے ہیں۔ اگر جمعہ کے دن اس روایت کو شروع کر دیا تو پورا وقت گزر جاتا ہے۔ ہمارے ہندستان کے بیشتر علاقوں میں ایک بجے سے تقریر شروع ہوتی ہے اور دیڑھ بجے جماعت کا وقت رکھا جاتا ہے تو اس روایت کو بیان کرنے کا مطلب ہے کہ بیس پچیس منٹ تک روایت کو بیان کرنے میں لگا دو باقی چندہ اور اعلانات وغیرہ ملا کر پورا جمعہ ختم...! 
اب میں اسے مختصر کر کے لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ واقعہ کچھ یوں بتایا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ جبرئیل علیہ السلام ہمارے نبی ﷺ کو جنت اور جہنم کے بارے میں بتا رہے تھے کہ انھوں نے کہا میں نے فلاں فلاں نبی کی امت کو جہنم میں دیکھا، اس پر ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے جبرئیل! کیا تو نے میری امت کو بھی جہنم میں دیکھا؟ حضرت جبرئیل خاموش ہو گئے پھر دو تین بار ارشاد ہونے پر عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! میں نے آپ کی امت کو بھی جہنم میں دیکھا! یہ سن کر ہمارے نبی بے قرار ہو گئے اور جنگل کی طرف تشریف لے گئے۔ مسجد میں نماز کے وقت بھی واپس نہیں آئے تو صحابۂ کرام نے تلاش شروع کی، پورے تین دن تک آپ نہیں ملے! اس کے بعد معلوم کرتے کرتے ایک چرواہے سے پتا چلا کہ وہ کسی غار میں ہیں۔ یہاں اس طرح بھی بیان کیا جاتا ہے کہ چرواہے سے پوچھا گیا کہ کیا تو نے ہمارے نبی کو دیکھا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تو نہیں جانتا کہ تمھارا نبی کون ہے لیکن فلاں غار میں کوئی رو رہا ہے کہ جس کے رونے کی آواز سن کر میری بکریوں نے کھانا چھوڑ دیا ہے۔ یہ سن کر صحابۂ کرام غار کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺ سے گزارش کی لیکن آپ ﷺ نے باہر آنے سے منع کر دیا اور فرمایا کہ تم لوگ چلے جاؤ، میں اس وقت تک رو رو کر دعائیں کرتا رہوں گا جب تک اللہ تعالی مجھ سے میری امت کو بخشنے کا وعدہ نہیں کر لیتا۔ صحابۂ کرام نے مشورہ کیا کہ حضرت فاطمہ کو یہاں پر بلایا جائے، ان کے کہنے سے آپ ﷺ باہر آ جائیں گے چنانچہ حضرت فاطمہ کو بلایا گیا، آپ نے آ کر کہا کہ بابا جان اگر آپ آج باہر نہیں آئیں گے تو فاطمہ اپنی چادر سر سے ہٹا دے گی اور آج آسمان وہ دیکھے گا جو اس نے آج تک نہیں دیکھا۔ یہ جملہ جیسے ہی ادا ہوا تو اللہ تعالی نے حضرت جبرئیل کو حکم دیا کہ فوراً جاؤ اور میرے نبی سے کَہ دو کہ ان کی امت کو بخش دیا گیا ہے اور وہ باہر آ جائیں ورنہ اگر فاطمہ نے چادر ہٹا دی تو غضب ہو جائے گا۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل نے آ کر خوش خبری دی پھر ہمارے نبی ﷺ باہر تشریف لائے۔ 
اس میں اور بھی کئی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ہر مقرر کا اپنا اپنا انداز ہے رنگین بنانے کا۔ 
یہ روایت کسی معتبر کتاب میں نہیں ملتی۔ یہ روایت خود بتا رہی ہے کہ ایسی کوئی روایت ہے ہی نہیں۔ 

امام اہل سنت، اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
یہ باطل اور بے اصل ہے، کسی معتبر کتاب میں اس کا نام نشان نہیں (ملخصاً) 

(دیکھیں: فتاوی رضویہ، ج29، ص329 تا 333، ط رضا فاؤنڈیشن لاہور) 

حضرت فاطمہ کے بارے میں مذکورہ جملے بھلا کیسے تسلیم کیے جا سکتے ہیں؟ پھر یہ کہ مسلسل تین دنوں تک غائب رہنا اور کسی کو پتا نہ چلنا بہت بعید ہے۔ جو ایسی روایات بیان کرتے ہیں انھیں خوف کھانا چاہیے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ کیا وہ اس کا ثبوت دے سکتے ہیں، نہیں سے سکتے؛ پھر کیوں ایسی بے اصل روایات کو بیان کرتے ہیں! ہم عوام اہل سنت سے اب گزارش کرتے ہیں کہ ایسے مقررین سے سوال کریں اور دلیل طلب کریں۔ ہمارے مقابلے میں بدمذہب بخاری مسلم کر کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور ہمارے منبروں سے ایسی روایات بیان کی جا رہی ہیں، کتنے افسوس کی بات ہے۔ اب ہمیں چاہیے کہ ایسی روایات کی نشان دہی کریں اور بیان کرنے والوں کو پکڑنا شروع کریں۔

عبد مصطفی 
محمد صابر قادری

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post