در یتیم

رسول اللہ ﷺ کو در یتیم کہنے کا حکم بیان کرتے ہوئے علامہ مفتی محمد اسماعیل حسین نورانی لکھتے ہیں:
حضور پرنورسید العالمین محمد رسول اللہ ﷺ کو در یتیم کہنا شرعا جائز ہے۔ ’’در‘‘ موتی کو
کہتے ہیں اور ’’یتیم“ ایسی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ذات میں منفرد یکتا اور بے مثال ہو۔ علامہ قرطبی مالکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یتیم کا لفظ یتم سے ماخوذ ہے اس کا بنیادی معنی ہے: منفرد اور یکتا ہونا۔ جو بچہ اپنے باپ سے جدا ہو جائے اسے یتیم کہا جاتا ہے اور ایسا منظوم کلام جس کے آگے پیچھے مزید اشعار نہ ہوں اس کو بیت یتیم کہتے ہیں اور ایسا موتی جو بے مثال ہو اس کو در یتیم کہتے ہیں۔ (تفسیر القرطبی، البقرۃ:۸۳) 
علامہ سید محمود آلوسی حنفی بغدادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
یتیم "یُتْم" سے ماخوذ ہے، اس کا بنیادی معنی ہے: منفرد اور یکتا ہونا۔اس معنی کے اعتبار سے یہ لفظ ہر اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جس کی مثال کا ملنا دشوار ہو جیسے بے مثال موتی کو در یتیم کہا جاتا ہے۔
(روح المعانی، النساء: ۲)

ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ در یتیم میں یتیم کا لفظ بے مثال کے معنی میں
ہے یعنی ایسا موتی جس کی کوئی مثال نہ ہو۔ اس لیے نبی اکرم ﷺ کو در یتیم کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ آپ کو اللہ تعالی نے ہر اعتبار اور ہر جہت سے مخلوق کے ہر ہر فرد پر بے مثالی کا
درجہ عطا فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا:
"لست کاحد منکم" میں تم میں سے کسی کی مثل نہیں ہوں۔ (صحیح البخاری:۱۹۶۱)

بے مثالی کے اس بلند و بالا مرتبہ کی وجہ سے آپ کو در یتیم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ علامہ صاوی مالکی علیہ الرحمہ کمال صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں: 
یتیم کا لغوی معنی منفرد اور یکتا ہونا ہے اسی معنی میں بے مثال موتی کو در یتیم کہتے
ہیں اور سرور کائنات ﷺ کو بھی اس بے مثالی کی وجہ سے یتیم کی صفت سے متصف کیا جاتا ہے۔ 
(تفسیر صاوی، النساء:٢) 

(دیکھیں انوار الفتاوی، ص116 و 117)

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post