فلسطین کے لیے ہم کیا کریں؟
یہ ایک سچ ہے جسے کڑوا سچ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعا کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ کہتے ہیں کہ "قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے" ٹھیک اسی طرح فلسطینی مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ ایک لمبے عرصے سے توڑے جا رہے ہیں ان سے پہنچنے والی تکلیفوں کا ہم صحیح سے اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ یہاں ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگرچہ ہم فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ مل کر لڑ نہیں سکتے لیکن ابھی ہم جہاں ہیں وہاں رہ کر بھی ایک جنگ لڑ سکتے ہیں؛ یہ اس طرح کہ ہم سب کا اصل "مقصد" دین ہے اور اسی دین کے لیے ہمارا سب کچھ ہے تو پھر اپنے اندر کے جذبے کو بیدار کریں اور دین کی خدمت کے لیے آگے آئیں۔
صاف لفظوں میں یہ کہ دین کے لیے کام کرنا شروع کریں۔ جتنا آپ کر سکتے ہیں اتنا کریں۔ نوجوان نسل آگے آئے۔ عیش اور آرام کو ہی مقصد نہ بنائیں۔ دنیا کی رنگینیوں سے باہر آئیں۔ کچھ بڑا کر دکھائیں۔ قوم کو فائدہ پہنچائیں۔ اس امت کے مستقبل کے لیے محنت کریں۔ یہ آپ کر سکتے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں پر ہو رہے ظلم کو دیکھ کر کس قدر خون کھولتا ہے؟ بس اسے ٹھنڈا نہ ہونے دیں، اس آگ کو اندر برقرار رکھیں اور دین کے کاموں میں حصہ لیں۔ ہر شخص اپنا بہتر کر کے دکھائے۔ صرف مال کمانے، کھانے، پہننے اور محل بنانے میں اپنی عمر نہ گزاریں۔
ابھی چند دنوں تک آپ اگر فلسطینی مسلمانوں کے لیے اپنا درد دکھاتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں اور پھر اپنی اسی زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں جس میں دین کے لیے وقت نہیں نکلتا تو پھر یہ وقتی جذبات ہیں۔ اپنے آپ کو بیدار کریں اور پھر بیدار رکھیں۔ مثالی کام کر جائیں۔ میدان بہت سے خالی پڑے ہیں، بس جنگ لڑنے والوں کی ضرورت ہے۔ ضرورت ہے تو جدوجہد کرنے والوں کی۔ سمندر کے اوپر جھاگ تو بہت ہے پر ہماری پکار ہے کہ سمندر کی گہرائی بن جاؤ!
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here