بحث کے لیے وقت
کچھ کہنے سے پہلے پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ ہماری عوام اور خواص دونوں کے پاس بحث کے لیے بہت وقت ہے لیکن کام کرنے کے لیے نہیں۔ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے تب سے یہ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ مذہبی بحثوں میں حصہ لینا ہر کسی نے اپنا فرض سمجھ لیا ہے۔ کسی بھی موضوع پر کوئی بھی بحث کرتا نظر آ رہا ہے اگرچہ اس موضوع پر علم نہ رکھتا ہو۔ مذہبی بحثوں کے علاوہ میں یہ اتنا زیادہ نہیں کہ وہاں بندہ تسلیم کرتا ہے کہ اسے وہ فن نہیں آتا یا اس موضوع کے متعلق علم نہیں رکھتا لیکن دینی معاملات اور مسائل پر بنا سوچے سمجھے بولنا شروع کر دیا جاتا ہے!
صوفیاے کرام پہلے تو مناظرے کو بھی اچھا نہیں جانتے تھے؛ یہ الگ سی بات ہے کہ مناظرہ ضروری بھی ہے۔ امام غزالی کا یہ قول ملتا ہے کہ وہ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ مناظرے میں ان کے سامنے والا غلطی کرے لیکن آج آپ دیکھیں کہ مناظرہ کرنے والا یہی چاہتا ہے کہ سامنے والا غلطی کرے اور میں اسے پکڑ لوں۔ یہی طریقہ مذہبی بحثوں میں عام ہے کہ سامنے والے کی غلطی کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ اسے فوراً رگڑ دیا جائے۔ یہ طریقہ کم از کم ہر جگہ تو درست نہیں۔ اس سے معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کوئی ایک تحریر یا ایک پوسٹ کر کے آگ جلا دیتا ہے پھر اس میں آپ جا کر دیکھیں تو ہر شخص لکڑی لیے موجود ہوتا ہے تاکہ آگ کو مزید بڑھا سکے۔ ہمیں ایسی بحثوں سے بچنا ضروری ہے اور جب بہت زیادہ ضروری ہو تبھی کیا جائے اور وہی کرے جو اس کا اہل ہو ورنہ آج کل تو مناظرے بھی ایسے لوگوں کو کرتے دیکھا جا رہا ہے جو عربی پڑھنا بھی نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here