ہم چاہتے ہیں کہ...

ہمارے پاس کتابوں کے تعلق سے اس قدر فرمائشیں آ رہی ہیں کہ ہم خود حیران ہیں۔ خاص لوگوں میں ایک طبقہ ہے جو بزرگوں کی علمی اور تحقیقی کتابوں کو شائع کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے، پھر نوجوان طبقہ رومن اردو میں کتابوں کے لیے گویا جنون سوار ہے، ہم کسی کتاب کے بارے میں بتا دیتے ہیں کہ دو مہینے بعد آئے گی لیکن پھر بھی ہفتے دس دن میں آ کر لوگ جائزہ لیتے رہتے ہیں، ایک طرف ڈجٹل فارمیٹس یعنی پی ڈی ایف (PDF) اور اس سے زیادہ ای پب (EPUB) کی ڈیمانڈ ہے تو دوسری طرف ہارڈ کاپیز (Hard Copies) کی اور پھر آڈیو بک (AudioBook) کے لیے بھی مطالبات کی کثرت ہے۔

اتنا سب روزانہ دیکھنے کے بعد دل کرتا ہے کہ کاش ہمارے پاس اتنا مال ہوتا تو ہم دھوم مچا دیتے، ہم چاہتے ہیں کہ ایک زمین لے کر وہاں ریسرچ سینٹر کھڑا کریں جو کتابوں کی دنیا میں تہلکہ مچا دے، وہاں کام کرنے کے لیے نوجوانوں کو جمع کیا جائے، تنخواہ دے کر کام کروایا جائے، مدرسوں سے فارغ ہونے والے طلبا کو کام پر لگایا جائے، ہر کتاب کو جدید طرز پر شائع کیا جائے، مختلف زبانوں پر کام کیا جائے اور ہر طرف اہل سنت کا لٹریچر عام ہو لیکن اس کے لیے بہت بڑی رقم کی ضرورت ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہماری قوم کا اکثر پیسہ فضول کاموں میں جا رہا ہے یا کم سے کم ان کاموں میں لگ رہا ہے جو ترجیحات میں شامل نہیں۔

ہمارے ساتھ ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جڑی ہے جو خود روزگار کی تلاش میں ہیں اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے ایک عرصہ ہو گیا پر نکاح تک نہیں کر سکتے، ایسے لوگ ہمارا ساتھ دینا تو چاہتے ہیں لیکن چاہ کر نہیں دے پاتے، اب اگر مالداروں کی بات کریں تو ان کا ذہن بدلنے میں ہی ہمیں کافی محنت کرنے کی ضرورت ہے، وہ ایک الگ ہی قسم کی ذہنیت رکھتے ہیں جس کے ہوتے ہوئے کتابوں کے نام پر ایک روپے لینا ایک ہزار لینے کے برابر ہے۔

اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے ارادوں کو پورا کر سکیں۔

عبد مصطفی 
محمد صابر قادری
نومبر 10، 2023

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post