ووٹ (Vote) اور علماے دین
تمام مسلمانوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ووٹ کے بارے میں علماے دین (یعنی دین کو جاننے والوں) نے کیا فرمایا ہے تاکہ ہم اپنا نظریہ درست رکھ سکیں۔ اس تحریر میں ووٹ کے تعلق سے کئی اہم باتیں بیان کی جائیں گی۔
آج سے تقریباً پچیس سال پہلے ہمارے پڑوسی شہر بوکارو اسٹیل سٹی (Bokaro Steel City) سے خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہند، علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمہ اللہ کے پاس ایک سوال بھیجا گیا کہ:
کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلے میں کہ ہمارے شہر میں کچھ مسلم عوام اور علما میں سے بی جے پی (BJP) کو ووٹ دلانے دینے اور اور اس پارٹی میں رکنیت حاصل کر کے بھارتی جنتا پارٹی کی وکالت کرنے والوں کو کافر و مرتد اور خارج اسلام ہونے کا فتوی دے چکے ہیں، ان سب کی دلیل یہ ہیں:
بی جے پی ہندو رواج قائم کرنا چاہتی ہے،
مسلم پرسنل لا میں ترمیم کر کے یکتا سول کوڈ کے نفاذ کے لیے کوشاں ہے،
مساجد و عیدگاہ کو مندروں میں تبدیل کرنا چاہتی ہے، جس کی کھلی شہادت بابری مسجد کی شہادت ہے،
بی جے پی ہندو راج قائم کر کے آر ایس ایس کی تعلیمات کو فروغ دینا چاہتی ہے،
آر ایس ایس کی تعلیمات و مقاصد مسلمانوں کا شدھی کرنا، اسلام کو نیست و نابود کرنا اور بندے ماترم کہلوانا ہے اور ہندو دھرم میں مسلمانوں کو شامل کرنا ہے جب کہ یہ سارے معاملات جمہوریت کے منافی ہیں اور اسلام کی توہین ہے اور توہین اسلام کفر ہے اس لیے بی جے پی میں شامل مسلمان اور اس کو ووٹ دلانے والے خارج اسلام ہیں کیوں کہ ووٹ دینا اور دلانا اور اس پارٹی کی رکنیت حاصل کرنا کفر کی مدد ہے اور کفر کی مدد کرنا کفر ہے۔
لہذا آپ سے گزارش ہے کہ مفصل جواب کے ساتھ یہ بھی واضح فرما دیں کہ مذکورہ وجوہات کی بنا پر کفر کا فتوی دینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اگر ہاں تو پھر کیا ان کے ساتھ کافروں جیسا ہی سلوک کیا جائے؟
علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ جواب میں لکھتے ہیں:
بی جے پی کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح ہے اس لیے اگر کوئی مسلمان بی جے پی کی ان دفعات کو جاننے کے بعد اس نیت سے بی جے پی کی حمایت کرے یا اس کی پارٹی میں شریک ہو یا اسے ووٹ دے تو یقیناً وہ کافر و مرتد ہے۔ لیکن عام طور پر مسلمان ووٹ اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے دیا کرتے ہیں۔ ان کا مقصود پارٹی کی اغراض و مقاصد حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنا ذاتی فائدہ حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مثلاً ملازمت، کوئی لائسنس یا کسی مقدمہ میں براءت وغیرہ یا یہ کہ کچھ پیسے مل جائیں گے۔ اس لیے بھاجپا کے ہر ووٹ دینے والے کو کافر ومرتد کہنا صحیح نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ حرام اشد حرام- فسق بدترین فسق اور مسلمانوں سے غداری ضرور ہے۔ اگر پارٹیوں کے منشور کو دیکھا جائے تو از روئے شرع کسی پارٹی کو ووٹ دینا جائز نہ ہوگا، کانگریس کیا کم ہے؟ بابری مسجد کا نزاع اور پھر اس کی شہادت کی ساری ذمہ داری کانگریس کے سر ہے۔ مسلمانوں کی دشمنی میں کانگریس نے کوئی کمی نہیں کی ہے۔ جس وقت کانگریس کو حکومت ملی تھی اس وقت کی بہ نسبت آج مسلمان کتنے پسماندہ ہو چکے ہیں، کتنے پیچھے دھکیل دیے گئے ہیں، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اور تقریباً تمام پارٹیوں کا یہی حال ہے کہ الیکشن کے وقت لمبے لمبے وعدے کرتے ہیں اور بعد میں مسلمان کی طرف دیکھتے نہیں۔ کوئی مسلمان فریاد لے کر جائے تو سنتے نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
(فتاوی شارح بخاری، ج2، ص364)
فتاوی بحر العلوم میں بھی یہی سوال درج ہے جو ہم نے نقل کیا اور سوال بھیجنے والے بھی الگ نہیں بلکہ وہی ہیں۔ جواب میں بحر العلوم، علامہ مفتی عبد المنان اعظمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس میں شبہ نہیں کہ سوال میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں کئی ایک ایسی ہیں کہ ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ان پر عمل کرنا یا انھیں بروئے کار لانا تو بڑی بات ہے، اگر کوئی ان سے راضی ہو اور اس کی تصدیق کرے تو دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
فقہ کی تمام کتابوں میں لکھا ہے:
"رضا بالکفر کفر"
یعنی کفر سے راضی ہونا بھی کفر ہے۔
لیکن ووٹ اور الیکشن کے زمانے میں اسلام اور کفر کی باریکیوں تک جانا کچھ ضروری نہیں۔ آنکھ کے کھلے اور بند ہونے کی کوئی تخصیص نہیں۔ ہر اندھا اور انکھیارا دیکھ رہا ہے کہ بی جے پی کی حکومت میں پبلک جس قدر پریشان ہوتی ہے، امن و امان کی حالت جتنی مخدوش ہے، اقتصادی بد حالی کا جو حال ہے اور ظلم و غارتگری کا جو طوفان ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی کسی کو بھی ایسے کرپٹ سیاستدانوں کو خواہ کتنا بڑا نیتا کیوں نہ ہو، ووٹ دے کر بھارت کی حکومت سونپنا ناجائز اور گناہ ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ غلط ممبران چاہے کسی پارٹی کے ہوں بھارت کی پوری پبلک یہ کوشش کرے کہ ان کی ضمانت ضبط ہو جائے۔
کسی آدمی کو ووٹ دے کر اسمبلی یا پارلیامنٹ میں بھیجنے کا مطلب اسلامی شریعت میں یہ ہے کہ وہ ممبر پانچ سال کی مدت میں جتنا ظلم، نا انصافی، رشوت خوری اور جعل سازی اور ناجائز کام کرے گا سب کا گناہ ووٹ دینے والے کے سر ہوگا۔
قرآن شریف میں ہے:
نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور ظلم و سرکشی پر مدد نہ کرو (المائدہ:2)
(فتاوی بحر العلوم، ج4، ص306)
فتاوی شرعیہ میں ایک سوال ضلع چمپارن بہار سے کیا گیا کہ زید جو حاجی اور ایک سنی ادارہ کا سرپرست اور وہاں کی قوم کا سربراہ ہے، حالیہ گذشتہ الیکشن میں اس نے ایک مسلمان امیدوار کے مقابلے میں غیر مسلم امیدوار کو کامیاب بنانے کی بھرپور کوشش کی حتی کہ مدینہ منورہ کی ٹوپی لوگوں کے قدم میں ڈال کر اس مقدس ٹوپی کے صدقے میں غیر مسلم کے لیے مسلمانوں سے ووٹ طلب کیا اور غیر مسلم کو کامیاب بنایا، اب زید پر شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب میں علامہ مفتی محمد فضل کریم لکھتے ہیں کہ مسلم امیدوار کے مقابلے میں غیر مسلم کو کامیاب بنانے کے لیے حاجی موصوف کی سعی و کوشش اور لوگوں کے قدموں میں ٹوپی کا ڈالنا سخت گناہ اور شرعی اصول کے خلاف ہے جب کہ قرآن حکیم نے ایمان والوں اور صحابہ کرام کی یہ تعریف بیان کی کہ "وہ کافروں پر سختی کرنے والے اور آپس میں یعنی مسلمانوں پر رحم و کرم کرنے والے ہیں" حاجی موصوف نے اس کی خلاف ورزی کی جو ایک مسلمان کے شایان شان نہیں لہذا ان کو اعلانیہ توبہ کرنا چاہیے۔
(فتاوی شرعیہ، ج2، ص592)
فتاوی شرعیہ میں ایک اور سوال کچھ یوں ہے کہ زید کی بستی میں ایک حافظ صاحب پیش امام ہیں۔ وہ مسجد کے کام انجام دیتے ہیں، جب ووٹ کا وقت آیا تو امام صاحب کسی شخص سے بات کر رہے تھے کہ "کانگریس نے مسلمانوں کے حق میں بہت غداری کی ہے، اس لیے ووٹ جن سنگھ کو دینا چاہیے" اس وقت زید نے حافظ صاحب کو "کافر" قرار دیا حالانکہ حافظ صاحب ایک سنی خیال کے آدمی ہیں۔ براہ کرم مطلع فرمائیں کہ حافظ صاحب "کفر" میں آئے کہ نہیں اور زید پر شریعت میں کوئی پابندی ہے یا نہیں؟ زید نے غلط کیا یا صحیح؟
جواب میں علامہ مفتی فضل کریم حامدی لکھتے ہیں:
زید نے جو امام صاحب کو ووٹ دینے کے سلسلے میں کافر کہا، زید اس قول سے سخت گنہگار، مستحق عذاب نار ہوا، زید کو فوراً توبہ کر کے تجدید ایمان و تجدید نکاح کرنا چاہیے کیونکہ کسی مسلمان کو کافر کہنے سے وہ کفر خود کہنے والے کی طرف پلٹ جاتا ہے، جن سنگھ یا کسی اور پارٹی کو ووٹ دینے سے کافر نہیں ہوتا، زید کا قول لغو و بیہودہ ہے، اس کو توبہ کرنا واجب ہے۔
(فتاوی شرعیہ، ج2، ص614)
ہم نے ووٹ دینے کے تعلق سے علماے دین کا نظریہ پیش کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ ظالم اور اسلام دشمن پارٹیوں کو ووٹ دینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی اچھا امیدوار موجود نہ ہو تو کسی کو بھی ووٹ نہ دیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ ایک اچھا امیدوار کھڑا کیا جائے۔ سیاست میں بھی مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی پکڑ مضبوط کریں کیوں کہ اس کے ذریعے قوم کے کئی بڑے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
علماے اہل سنت، پیر صاحبان اور قوم کے مالدار لوگوں کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ مستقبل کے لیے ہمیں کس طرح کام کرنا چاہیے۔ ابھی حالات جو بھی ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مستقبل بھی ایسا ہی ہوگا۔ اگر محنت اور لگن کے ساتھ کام کیا جائے تو بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ نہ تو خود سیاست میں آتے ہیں اور نہ دوسروں کو آنے دیتے ہیں اور وہ اس طرح کے اپنے ماننے والوں کو سیاست سے دور رہنے کو کہتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ قوم کی ترقی کے لیے جن شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے ان سب کو چھوڑ کر فقط کسی ایک شعبے کو ہی اول آخر سمجھنا غلط ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ جو جس شعبے میں کام کر سکتے ہیں، اس میں اچھی طرح کام کریں۔
عبد مصطفی
محمد صابر قادری
6 اپریل، 2024
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here