مشہور کتاب "تفریح الخاطر" میں حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی نسبت سے یہ روایت داخل ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک خادم فوت ہو گیا- اس کی بیوی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آہ وزاری کرنے لگی- اس نے آپ سے اپنے شوہر کو زندہ کرنے کی التجا کی- آپ نے علم باطن سے دیکھا کہ ملک الموت اس دن قبض کی گئی تمام روحوں کو لے کر آسمان پر جا رہے ہیں- آپ نے اسے روکا اور کہا کہ میرے خادم کی روح واپس کر دو تو ملک الموت نے یہ کَہ کر منع کر دیا کہ میں نے یہ روحیں اللہ تعالی کے حکم سے قبض کی ہیں-
جب ملک الموت نے روح واپس نہیں کی تو آپ نے اس سے روحوں کی ٹوکری (جس میں اس دن قبض کی گئی تمام روحیں تھیں، وہ) چھین لی! اس سے ہوا یہ کہ جتنی روحیں تھیں وہ سب اپنے اپنے جسموں میں واپس چلی گئیں-
ملک الموت نے اللہ تعالی کے حضور عرض کی: مولا تُو تو جانتا ہے جو تکرار آج میرے اور عبد القادر کے درمیان ہوئی، اس نے تمام ارواح چھین لیں-
اس پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اے ملک الموت بے شک عبد القادر میرا محبوب ہے- تو نے اس کے خادم کی روح کو واپس کیوں نہیں کیا؟ اگر ایک روح کو واپس کر دیتے تو اتنی روحیں اپنے ہاتھوں سے دے کر پریشان نہ ہوتے-
(ملخصاً: تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبد القادر، المنقبۃ الثامنۃ، ص68، ط قادری رضوی کتب خانہ لاہور)
اسی روایت کے بارے میں امام اہل سنت، اعلی حضرت رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا، بس فرق اتنا ہے کہ یہاں خادم کی بیوی کا ذکر ہے اور سوال میں خادم کے بیٹے کا- سوال میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جب ملک الموت نے روح واپس کرنے سے انکار کیا تو حضور غوث پاک نے انھیں ایک تھپڑ مارا جس کی وجہ سے ملک الموت کی آنکھ باہر نکل گئی!
اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ یہ روایت ابلیس کی گھڑی ہوئی ہے اور اس کا پڑھنا اور سننا دونوں حرام! احمق، جاہل، بے ادب یہ سمجھتا ہے کہ (اس روایت کو بیان کر کے) حضرت غوث اعظم کی تعظیم کرتا ہے حالانکہ وہ حضور کی سخت توہین کر رہا ہے-
(انظر: فتاوی رضویہ، ج29، ص630، ط رضا فاؤنڈیشن لاہور، س1426ھ)
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here