(قسط 2)
وقار ملت علیہ الرحمہ سے دوسرے مقام پر سوال کیا گیا کہ پروفیسر طاہر القادری مسلک اہل سنت و جماعت سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں؟ اور ہمیں ان کے بارے میں کیا رائے رکھنی چاہیے؟ ان کے بارے میں ایک رسالے میں پڑھا ہے کہ یہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز کو جائز سمجھتے ہیں اور ان سے جو اختلافات ہیں اسے فروعی گردانتے ہیں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ یہ گستاخان رسول ﷺ کو کافر نہیں سمجھتے اور یہ کہ ان کے نزدیک احترام رسول ﷺ بھی فروعی مسئلہ ہے، تو کیا یہ شخص "مَن شك فی کفره و عذابه فقد کفر" (جو ان گستاخان رسول کے کفر اور عذاب میں شک کرے وہ کافر ہے) کے تحت آئے گا یا نہیں؟
آپ علیہ الرحمہ جواب میں لکھتے ہیں کہ پروفیسر طاہر القادری کا کہنا یہی ہے کہ یہ اختلافات فروعی ہیں- مورخہ 28 ستمبر 1987ء کے جنگ اخبار میں یہ خبر چھپی ہے کہ انھوں نے ہوٹل میں عورتوں سے خطاب کیا؛ ایک خاتون نے جب ان سے سوال کیا کہ جب اسلام اتحاد کا درس دیتا ہے تو پھر اتنے فرقے کیوں؟
اس پر پروفیسر طاہر القادری صاحب نے جواب دیا کہ تمام فرقوں کی بنیاد ایک ہے، صرف جدا جدا طریقہ ہے اس لیے اتحاد متاثر نہیں ہوتا اور انھوں نے اپنے انٹرویو میں پہلے بھی کہا تھا کہ ان کے یہاں دو مدرس دیوبندی اور ایک شیعہ ہے لہذا اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ ان کے خیال میں اور "ندوہ" والوں کے خیال و اعتقاد میں کیا فرق ہے-
(وقار الفتاوی، ج1، ص325، 326)
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here