علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ حامد بن عباس کا ایک دوست بیمار ہو گیا تو عیادت کے لیے اس نے اپنے بیٹے کو بھیجنے کا ارادہ کیا- بھیجتے وقت اپنے بیٹے کو نصیحت کی:
بیٹا! جب وہاں داخل ہو جاؤ تو اونچی جگہ بیٹھنا اور مریض سے پوچھنا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ جب وہ کہے کہ فلاں فلاں تکلیف ہے، تو جواب میں کہنا کہ انشاء اللہ ٹھیک ہو جاؤ گے- پھر پوچھنا کہ کون سے حکیم سے علاج کرواتے ہو؟ جب وہ کسی حکیم کا نام لے تو کہنا کہ اچھا ہے، مبارک ہے- پھر کہنا کہ غذا (کھانے) میں کیا استعمال کرتے ہو؟ جب وہ کسی غذا کا نام بتائے تو کہنا کہ اچھا کھانا ہے، بہتر غذا ہے-
بیٹا اپنے باپ کی نصیحتوں کو سن کر عیادت کے لیے وہاں پہنچا تو مریض کے سامنے ایک مینار تھا، وہ نصیحت کے مطابق اس پر بیٹھا تو اچانک وہاں سے گر پڑا اور مریض کے سینے پر جا پڑا اور اسے مزید تکلیف میں مبتلا کر دیا- پھر مریض سے پوچھا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟
مریض نے کہا کہ مرض الموت میں ہوں- اِس نے کہا کہ انشاء اللہ بہت جلد نجات پاؤ گے! (یعنی جانے کا وقت قریب ہے)
پھر پوچھا کہ کس حکیم سے دوائی لیتے ہو؟
مریض نے کہا کہ ملک الموت!
اس نے کہا کہ مبارک ہے، با برکت ہے- پھر پوچھا کہ کون سی غذا استعمال کرتے ہو؟
مریض نے کہا کہ مارنے والا زہر! اِس نے کہا کہ بہت مزے دار اور اچھی غذا ہے!
(ملخصاً: اخبار الحمقی والمغفلین مترجم، ص278، 279، ط کرمانوالہ بک شاپ لاہور)
فی زمانہ اکثر مقررین کا معاملہ بھی اس سے کافی ملتا جلتا ہے- مذکورہ بیٹے نے جس طرح اپنے باپ کی نصیحت کو سمجھنے کی بجائے رٹ لیا اسی طرح ہمارے جوشیلے مقررین "بارہ تقریریں" اور "پچیس خطبات" وغیرہ رٹ کر میدان تقریر میں اتر جاتے ہیں اور پھر انجام کا اندازہ آپ مذکورہ بالا واقعے سے لگا سکتے ہیں-
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here