ایک مجاہد ایک ہزار کافر
کم سے کم مسلمانوں کو تو ایسا نہیں سوچنا چاہیے کہ جنگ تعداد یا ہتھیاروں کی کثرت سے جیتی جاتی ہے۔ یہ تو اللہ تعالی کی طرف سے ہے کہ اپنے فضل سے ایمان والوں کو فتح عطا فرماتا ہے۔ ہاں یہ ہے کہ لڑنے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔
ایک بار کا واقعہ ہے کہ چند صحابہ لکڑیاں جمع کرنے کے لیے گئے تو دشمنوں نے پکڑ کر قید کر لیا پھر سوال جواب کرنے کے بعد جنگ کا پیغام دے کر چھوڑ دیا۔ یہ حرکت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر سخت ناگوار گزری۔ آپ نے کافروں کو سبق سکھانے کے لیے بارہ لوگوں کو ساتھ لیا اور دشمنوں کی فوج میں شامل ہو گئے۔ ایک لشکر جو قلعے میں داخل ہونے والا تھا اس میں یہ بارہ مجاہدین اس طرح شامل ہو گئے کہ کسی کو معلوم نہ ہوا۔
جب وہاں کا حاکم فوج کے استقبال کے لیے قلعے سے نکل کر آگے آیا اور اتنا قریب آ گیا کہ دس ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا تو یہ بارہ مجاہدین آگے بڑھے اور کافر نے سوچا کہ یہ دستہ میری تعظیم کے لیے آگے آ رہا ہے۔ اس کافر نے مرحبا کہتے ہوئے کفریہ کلمات بکنا شروع کیے کہ حضرت خالد بن ولید کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے شیر کی طرح آگے بڑھے اور اسے دبوچ کر اپنی تلوار اس کی گردن پر رکھ دی۔
مجاہدین نے جب تلواریں تان لیں تو کافر سکتے میں پڑ گئے۔ اس کافر حاکم کو ایک جگہ قید کیا گیا اور پھر اکیلے اکیلے کا مقابلہ شروع ہوا۔ پہلے حضرت ابو بکر صدیق کے بیٹے حضرت عبدالرحمن نکلے اور پانچ شہسواروں کو جہنم رسید کر دیا پھر ایک کافر سے مقابلے میں آپ کافی زخمی ہو گئے اور مجاہدین کے پاس واپس آئے جہاں وہ کافر حاکم قید تھا۔ جب حضرت خالد بن ولید نے آپ کو زخمی دیکھا تو جلال میں آ گئے اور کافر حاکم جو قید میں تھا اس کی گردن اڑا دی!
جب کافروں کو معلوم ہوا کہ ان کے حاکم کی گردن اڑا دی گئی ہے تو سب تلملا گئے اور حملے کے لیے آگے بڑھے۔ حضرت خالد بن ولید نے ایک صحابی کو حضرت عبد الرحمن کی حفاظت پر مامور کیا اور فقط دس مجاہدین آگے بڑھے۔ سامنے دس ہزار کا لشکر تھا پر ادھر دس ایمان والے تھے۔ حضرت خالد بن ولید جدھر جاتے لاشوں کی ڈھیر لگ جاتی، اسی طرح دوسرے مجاہدین نے بھی اپنی بہادری دکھائی اور ہزاروں کا لشکر فقط دس مجاہدین سے پریشان ہو گیا۔
صبح سے لے کر دوپہر تک جنگ جاری رہی۔ مجاہدین تھک کر چور ہو چکے تھے اور انھیں لگا کہ اب شہادت کا وقت قریب ہے کہ اچانک حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اسلامی لشکر لے کر مدد کو پہنچ گئے اور کافروں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ وہ بیچارے پہلے سے ہی دس مجاہدین سے پریشان تھے تو اب مزید کیسے برداشت کر پاتے۔
(فیضان فاروق اعظم، ج2، ص565)
آپ نے غور کیا ہوگا کہ کافروں نے مسلمانوں کو پکڑا پھر چھوڑ دیا، اس پر حضرت خالد بن ولید نے کافروں کی خبر لے لی پر آج کافروں کی طرف سے ظلم پر ظلم کیا جا رہا ہے اور ہم جواب دینا تو دور جواب دینے کی سوچتے تک نہیں ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں اور ہماری نسلوں کو دین پر قربان ہونے کا جذبہ عطا فرمائے۔ ہمیں دین کے لیے لڑنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here