میرا ہاتھ کٹ کر لٹک گیا


جنگ بدر میں حضرت معاذ نے کچھ لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ابو جہل تک کوئی نہیں پہنچ سکتا تو آپ نے ٹھان لی کہ اس دشمن اسلام کو جہنم پہنچا کر ہی رہوں گا۔ آپ جنگ میں موقع تلاش کر رہے تھے اور ملتے ہی ابو جہل پر ٹوٹ پڑے۔ آپ نے اپنی لہراتی ہوئی تلوار سے جب وار کیا تو اس کا ایک پیر پنڈلی سے کٹ کر دور جا گرا!


ابو جہل کے بیٹے عکرمہ جو بعد میں ایمان لے آئے تھے انھوں نے آپ کی گردن پر تلوار سے وار کیا تو آپ نے بچنا چاہا لیکن بازو کٹ گیا اور لٹکنے لگا۔ بازو تقریباً کٹ چکا تھا اور چمڑے سے لٹکا ہوا تھا۔ آپ اسی بازو کے ساتھ لڑتے رہے لیکن وہ پریشانی کا سبب بنا ہوا تھا۔ وہ کٹا ہوا ہاتھ پیٹھ پر لٹک رہا تھا اور آپ کافی وقت تک اس سے پریشان رہے پھر آپ نے اسے اپنے پاؤں کے نیچے دبا کر کھینچا تو وہ الگ ہو گیا اور پھر آپ کافروں سے لڑنے میں مشغول ہو گئے۔ اللہ اکبر 


یہ تھا صحابہ کرام کا کافروں سے لڑنے کا جذبہ جو ایک ہاتھ کٹ جانے پر بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ آج ہمیں بھائی چارے کا بخار چڑھا ہوا ہے کہ اس سے آگے کچھ دکھتا ہی نہیں۔ ہمارے ساتھ مجبوریاں ہیں لیکن یہ ہماری عقل میں زیادہ ہیں اصل میں زیادہ نہیں۔

اگر عقل صحیح ہو تو پھر حالات وغیرہ نہیں دیکھے جاتے، بس اللہ کی مدد پر یقین رکھتے ہوئے میدان میں اتر جاتے ہیں پر یہاں عقل ہی غلام بنی ہوئی ہے تو ہاتھ پاؤں سلامت ہوتے ہوئے بھی ہم لڑ نہیں سکتے۔


عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post