مسلمانوں میں بزدلی کیوں؟


سوال ہے کہ مسلمانوں میں بزدلی کیوں ہے؟ 

اس کا جواب اگر مختصر الفاظ میں دیا جائے تو یہی ہے کہ "مسلمانوں کے اندر شوق شہادت اور راہ خدا میں قربان ہونے کا جذبہ باقی نہیں رہا اور موت کا خوف اس قدر ہو چکا ہے کہ زندگی بچانے اور زیادہ جینے کی تمنا لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں" اور اگر اس کی تفصیل میں جائیں تو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔


ابو داؤد میں ایک روایت ہے:


حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، ‌‌‌‌‌‏حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، ‌‌‌‌‌‏حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، ‌‌‌‌‌‏حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ السَّلَامِ، ‌‌‌‌‌‏عَنْثَوْبَانَ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‌‌‌‏   يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ قَائِلٌ:‌‌‌‏ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ ؟ قَالَ:‌‌‌‏ بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ قَائِلٌ:‌‌‌‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهْنُ ؟ قَالَ:‌‌‌‏ حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ (رقم:4297)


"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں! 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سوال کیا گیا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تعداد بہت ہوگی لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالی تمھارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں "وہن" ڈال دے گا تو عرض کی گئی: یا رسول اللہ! "وہن" کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے۔"


آج ہماری تعداد تقریباً دنیا کی ایک چوتھائی ہے اور تقریباً 50 ممالک میں ہماری اکثریت ہے اور ملک ہند کو لے لیں تو تقریباً 25 کروڑ مسلمان اس ملک میں رہتے ہیں لیکن پھر بھی جو حالات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ تاریخ کے اوراق پر ان مسلمانوں کا بھی ذکر موجود ہے جو اگرچہ تعداد میں ہم سے بہت کم تھے اور وسائل کی کمی تھی لیکن بڑے بڑے ظالموں کے سامنے مقابلے کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے اور اللہ تعالی کی طرف سے فتح یاب ہوتے تھے لیکن آج ہماری تعداد صرف سننے دیکھنے کی ہے۔ 


بزدلی اس قدر ہمارے اندر سرایت کر چکی ہے کہ شعائر اسلام پر کھلے عام حملہ ہوتا دیکھ کر بھی ہم بس افسوس کر کے رہ جاتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ "جب کعبے میں شیطان گھس جائے گا تب جاگو گے؟" آج بابری مسجد کا معاملہ ہمارے سامنے ہے، مسجد اقصی پر دشمنوں نے نظریں گاڑ رکھی ہیں، کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی تصویریں بھی نظروں سے گزرتی ہیں اور دنیا بھر میں ایسی کئی زمینیں ہیں جہاں مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے، کئی علاقے ایسے ہیں جن کی فضاؤں میں مظلوموں کی فریاد گونجتی ہے لیکن ہماری کروڑوں کی تعداد صرف تماشائی ہے۔ مسلمانوں کی ایسی کوئی ریاست نہیں جو مظلوموں کا دفاع کرے، کوئی ایسی سلطنت نہیں جس کے سایے تلے ہمارے بچوں کا مستقبل پھل پھول سکے اور کوئی ایسی طاقت نظر نہیں آتی جو مسلمانوں کو ان کا وطن واپس کر سکے۔


ملک ہندستان میں مسلمان جہاد کا نام لینے سے پہلے سوچتے ہیں۔ یہاں ہونے والے اجلاس وغیرہ میں تقریباً تمام موضوعات پر تقاریر ہوتی ہیں لیکن جہاد کی ضرورت و فضیلت پر "جہاد کانفرنس" شاید ہی کہیں دیکھنے کو مل جائے۔ اس کے علاوہ سیکڑوں کی تعداد میں ماہنامے، رسائل اور کتابیں چھپتی ہیں لیکن سب ذکر جہاد سے تقریباً خالی ہیں۔ جمعہ میں ہونے والی تقاریر، محافل میلاد میں ہونے والا بیان اور مختلف مقامات پر ہونے والے خطاب میں ذکر مجاہدین کے علاوہ ہر قسم کا ذکر ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کو بھی وراثت میں بزدلی مل رہی ہے۔



بزدلی پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جہاد پر کھل کر بات نہیں ہوتی اور ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ اب جہاد کی ضرورت نہیں رہی۔ مجاہدین اسلام کی سیرت بیان نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے نئی نسل بھی اسی بیماری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ نوجوانوں سے پوچھ لیا جائے کہ محمد بن قاسم کون تھے تو چہرے پر علم نہ ہونے کا واضح ثبوت دکھنے لگتا ہے، اگر سوال کریں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کون تھے اور ان کے کارنامے بتائیں تو ایسا لگتا ہے کہ کسی ناممکن بات کا مطالبہ کر لیا ہو اور پھر غازی ارطغرل، غازی عثمان، سلطان الپ ارسلان، سلطان محمد فاتح، سلطان عبد الحمید، شہاب الدین محمد غوری، اورنگ زیب عالمگیر اور جملہ مجاہدین اسلام کے بارے میں پوچھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ کسی دوسری دنیا کے لوگوں کی بات ہو رہی ہے۔ جب ہمیں اپنی تاریخ، اپنے مجاہدین اور ان کے کارنامے، ان کی شجاعت اور افکار کا علم ہی نہیں تو ظاہر ہے کہ ہم ویسے ہی بنیں گے جیسا بنانے کی کوشش دشمنوں کی طرف سے جاری ہے۔


دشمنوں نے کیا اچھا منصوبہ بنایا ہے کہ مسلمانوں کو غلام بنانے سے پہلے ذہنی غلامی کے کنویں میں دھکیلنا چاہیے اور وہ جانتے ہیں کہ بغیر اس کے مسلمانوں کو ان کے گھٹنوں پر لانا ممکن نہیں۔ آج مسلمان خود اس کنویں کی طرف جا رہے ہیں اور وہ اس طرح کے ہمارے کپڑے، ہماری زبان، ہمارا کھانا، کھانے کا طریقہ اور ہمارے افکار سب ان کے اشاروں پر چلنے والے غلاموں کی طرح ہیں۔ وہ چاہیں تو فیشن کے نام پر ہمیں جو چاہیں پہنا سکتے ہیں، آزادی کے نام پر جو چاہے کروا سکتے ہیں، انسانیت کے نام پر ظالم اور ظلم کا ساتھ دینے والا بنا سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو ہم سے اپنے ہی دین و شریعت کے مقابلے میں کھڑا کر سکتے ہیں۔


دنیا میں جو بھی ہو رہا ہے اس کے پیچھے صدیوں کی سازشیں ہیں لیکن مسلمانوں کے ذہن کو اس قدر غلام بنا لیا گیا ہے کہ وہ اسے دیکھنے سے قاصر ہیں۔ ہم جس بزدلی کی بات کر رہے ہیں اسے مسلمان بزدلی نہیں بلکہ حکمت، مصلحت، دور اندیشی، انسانیت اور امن وغیرہ کا نام دیتے ہیں اور یہی ذہنی غلامی ہے جسے ہم نے بیان کیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ بزدلی بھی ہے لیکن شعور نہیں رہا اور اسے اچھا بھی سمجھا جاتا ہے۔ 


مسلم ممالک کو دیکھ کر مسلم ممالک کہتے ہوئے شرم آتی ہے کیوں کہ بزدلی اور ساتھ میں ذہنی غلامی کے آثار صاف نظر آتے ہیں۔ اسلامی حکومت کے تحت فلمیں بنائی جا رہی ہیں لیکن کوئی پابندی نہیں ہے، یہ بھی ایک بزدلی ہے جسے حقوق اور آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ سنیما گھروں کی کثرت، بے پردگی کی اجازت اور جوا، شراب، زنا وغیرہ کا عام طور پر نظر آنا، یہ سب بھی بزدلی کی ایک قسم ہے۔ اسلامی حکمرانوں کے اندر طاقت نہیں کہ ان چیزوں پر پابندی عائد کر سکے۔ نام تو اسلامی ریاست ہے لیکن مسلمانوں پر ظلم ہوتا دیکھ یہ ریاستیں بھی بزدلی دکھانا شروع کر دیتی ہیں۔


اگر ہم یہ کہیں کہ چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک سب بزدلی کی لپیٹ میں ہیں تو کوئی غلط بات نہیں کیوں کہ جن مسلمانوں کے پاس ہتھیار، اقتدار اور طاقت نہیں وہ تو ظاہر ہیں لیکن جن کے پاس یہ سب ہیں وہ بھی ذہنی طور پر غلام ہونے کی وجہ سے بزدل ہیں۔ سب کو موت کا ڈر ہے حالانکہ مر جانے اور مار دینے دونوں میں مسلمانوں کا فائدہ ہے۔ یہ بات سمجھ میں آ جائے تو بزدلی دور ہو سکتی ہے۔ 


حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تلوار پر لکھا ہوا تھا :


فِی الْجُبنِ عَارٌ ، فِی الْاِقْبَال مَکْرُمَۃٌ

وَالْمَرْءُ بِالْجُبنِ لاَ یَنْجُوْ مِنَ الْقَدرٖ


بزدلی باعثِ شرم ہے، عزت آگے بڑھنے اور دشمن پر حملہ کرنے میں ہے ۔

بندہ بزدلی کرکے تقدیر سے کبھی نہیں بچ  سکتا۔ 


(موت ڈرپوک کو بھی آدبوچتی ہے ، اور بہادر بھی چلاجاتا ہے؛ کیا ہی اچھا ہو کہ بہادروں کی طرح جان قربان کی جائے!) 


(مدارج النبوة ، ج2، ص116)


علامہ لقمان شاہد حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ ابھی اپنے بیٹے کو مدارج النبوت سے یہ شعر پڑھایا ہے۔

یہ رسول اللہ ﷺ کی تلوار مبارک پر لکھا ہوا تھا۔

اُسے تلقین کی ہے کہ بیٹا! کبھی ڈرپوک نہیں بننا۔

عزت، بہادری میں ہے، بزدلی میں نہیں؛ مسلمان جرات مند ہوتا ہے، بزدل نہیں!!  


اللہ پاک ہمیں اور ہماری نسلوں کو جرات عطافرمائے ، ہم اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں ۔

(آمین) 


عبد مصطفی


Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post