ملاذکرد ایک یادگار جنگ


ایک بڑی فوج جس میں 35 ہزار سپہ سالار (کمانڈرز) اور کمانڈرز کے ساتھ 2 لاکھ سوار،

اس کے ساتھ 35 ہزار فرنگی،

قسطنطنیہ سے 15 ہزار جنگجو،

1 لاکھ کھدائی کرنے والے،

1 لاکھ دیوار میں شگاف کرنے والے،

چار سو بیل گاڑیوں پر فوجیوں کے ہتھیار اور دیگر سامان،

ایک ایسی منجنیق (پتھر پھینکنے والا آلہ) جسے 1200 لوگ مل کر چلاتے تھے اور کئی قسم کے آلات لے کر شاہ روم رومانوس اس ارادے سے نکلا کہ اسلام اور اہل اسلام کا نام و نشان مٹا دوں گا پر اسے کیا خبر تھی کہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گھومنے والے مسلمان سانس لے رہے ہیں اور جب تک آخری سانس باقی ہے وہ خون کے آخری قطرے تک مقابلہ کریں گے۔

اسے خود پر اتنا بھروسہ تھا کہ جنگ سے پہلے اپنے کمانڈرز کو شہر بانٹ دیے تھے حتی کہ بغداد کو ایک کمانڈر کی جاگیر میں دے دیا تھا۔ 


اس کافر سے مقابلے کے لیے سلطان الپ ارسلان اپنی فوج کے ساتھ آگے بڑھے جس کی تعداد بیس یا پچیس ہزار تھی!

جب سلطان الپ ارسلان نے ان کی تعداد دیکھی تو تھوڑی دیر کے لیے پریشان ہوئے۔ اس پر ایک عالم دین، فقیہ ابو نصر محمد بن عبد الملک بخاری حنفی نے ان کو حوصلہ دیا اور کہا کہ :

سلطان! جمعہ کے دن جنگ کیجیے جب خطبے میں مجاہدین کے لیے دعا کی جا رہی ہو، عین اس وقت دشمن پر حملہ کر دیں! اللہ تعالی فتح عطا فرمائے گا۔


اگر آج کا جمہوریت کا مارا عالم ہوتا تو کہتا کہ سلطان صاحب یہ تو موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اتنے بڑے لشکر سے لڑنے کی ہماری طاقت نہیں لہذا امن، شانتی، حکمت اور مصلحت... 


جمعہ کا دن آیا، سلطان الپ ارسلان نے میدان جنگ میں اپنی پیشانی کو رکھا اور اللہ تعالی سے فتح و نصرت کی دعا کی اور پھر اللہ تعالی کی مدد آن پہنچی۔

ہزاروں نے لاکھوں کو دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ شاہ روم رومانوس کو گرفتار کر لیا گیا۔


یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ ایک مختصر سے لشکر نے اتنے بڑے لشکر کو دھول چٹا دیا۔ اس واقعے نے رومیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ رومی شہنشاہیت کی بنیادیں ہل گئیں۔ ان علاقوں میں رومیوں کی سلطنت کمزور ہو گئی اور سلجوقی سلطنت کا پرچم بلند ہوا پھر آگے چل کر اس سلطنت کے خاتمے پر سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی گئی۔


(تاریخ ابن کثیر، ج12، ص108 و دولت عثمانیہ، ص81) 


عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post