اسلامی ریاست
اسلامی ریاست کی ضرورت ماں باپ کی طرح ہے۔ جس طرح بغیر ماں باپ کے بچوں کو دنیا کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں بالکل اسی طرح بغیر اسلامی ریاست کے مسلمانوں کی زندگی یتیموں کی طرح ہو جاتی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ کہاں کہاں کیا ہو رہا ہے اور یہ کس طرح بتایا جا سکتا ہے کہ اپنے بچوں کو تڑپ تڑپ کر مرتا دیکھ کسی مرد پر کیا گزرتی ہوگی۔ آخر کس طرح اس بچی کے چہرے کا نقشہ بیان کیا جا سکتا ہے جس نے ایک ہی دن میں اپنے ماں باپ اور بھائی سب کو کھو دیا ہو اور لاشوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر وہ اپنے چاروں طرف دیکھ رہی ہو۔
ایک ایسا منظر جس میں عورتوں اور مردوں کی تمیز کیے بغیر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں، اسے الفاظ کے ذریعے کیسے بیان کیا جا سکتا ہے۔ ان بے گناہ بچوں کی وکالت کن لفظوں سے کی جائے جنھوں نے ابھی دیکھنا شروع کیا تو اپنوں کی موت دیکھی اور کھیلنے کے لیے بس غم ان کے ہاتھ آیا۔ وہ عورت جس کا شوہر، بھائی اور باپ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے مارا گیا وہ اب اپنے بچوں کو اپنے دامن میں چھپا کر امید بھری نظروں سے ادھر ادھر دیکھتی ہے لیکن کوئی امید نظر نہیں آتی، اسے کس طرح لکھا جا سکتا ہے۔ یہ درد بھری داستانیں ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر مسلمان جانتا ہے۔
اگر مسلمانوں کی اپنی ریاست ہوتی تو ان مظلوموں کے دفاع کے لیے کھڑی ہوتی۔ اس ریاست کے سایے میں ہمارے بچوں کا مستقبل جوان ہوتا۔ وہ ریاست ہمارے ماں باپ کے قائم مقام ہوتی جو کسی بھی مصیبت کو ہم تک پہنچنے سے پہلے اپنے اوپر لے لیتی پر افسوس صد افسوس ہمارے اوپر ایسا کوئی ہاتھ نہیں جس کی طرف ہم رجوع کریں۔
کاش کہ اب مائیں پھر سے مجاہدین پیدا کریں، کاش کہ وہ دور پھر لوٹ آئے، کاش کہ ہماری مقدس زمینوں کو ہم تحفظ فراہم کرنے کے قابل ہو جائیں، کاش کہ اپنی ریاست کے قیام کے لیے یہ قوم اٹھ کھڑی ہو جائے...
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here