ولیمہ یعنی ایک لاکھ سے زیادہ


ولیمہ یعنی جتنے کی استطاعت ہو اتنے لوگوں کو بلا کر کھانا کھلا دینا پر آج کے دور میں ولیمہ یعنی ایک لاکھ سے زیادہ کا خرچ! 


آپ کی طاقت ہے دس 10 گھر کے لوگوں کو کھلانے کی پر پچاس 50 سے زیادہ آپ کے محلے میں ہی گھر موجود ہیں پھر اوپر سے رشتے داروں کی نظریں بھی آپ پر ہیں اور آپ نے سب کا کھایا ہے تو اب سب آپ سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔


اب یہ بتائیں کہ اگر دس گھروں میں دعوت دی جائے تو کن کو؟ اور کن کو چھوڑ دیا جائے؟ 


جن کو آپ دعوت نہیں دیں گے وہ ایسے ناراض ہوں گے کہ منھ ناک سب پھلا لیں گے تو اب ایک ہی راستہ ہے کہ قرض لو یا لڑکی والوں کا گلا دباؤ پر ولیمہ کرو حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔


حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالی ولیمہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ کہ دعوتِ سنت کے لیے کسی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں۔

اگر دو چار لوگوں کو کچھ معمولی چیز اگرچہ پیٹ بھر کر نہ ہو اگرچہ دال روٹی چٹنی روٹی ہو یا اس سے بھی کم کھلا دیں تو سنت ادا ہو جائے گی اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو کچھ الزام نہیں (یعنی نہ کھلائے تو کوئی حرج نہیں) 


(فتاوی امجدیہ، ج4، ص225)


مگر ہمیں سنت تو ادا کرنی نہیں ہے بلکہ قرض لے کر جس کا کھایا ہے اس کا قرض ادا کرنا ہے اور دنیا کو دکھانا اور راضی کرنا ہے تو ایسا ولیمہ اصل میں ولیمہ ہی نہیں۔

کئی ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس ولیمہ کے لیے ٹینٹ لگانے کے بھی پیسے نہیں ہیں پر قرض لے کر ہزار کی تعداد میں لوگوں کا پیٹ بھرنا پڑتا ہے اور پھر بھی لوگوں سے یہی سننے کو ملتا ہے پاپڑ نہیں ملا مجھے مچھلی کا پیس نہیں ملا مجھے زردہ نہیں ملا اور مجھے کولڈ ڈرنگ نصیب نہیں ہوئی۔


اللہ تعالی ہمیں سنت پر عمل کرنے اور سادگی کی توفیق عطا فرمائے۔


عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post