یہ نیزہ دوسروں سے الگ ہے
حضرت زبیر بن عوام کو جنگ میں ایک دشمن نے للکارا اور اس نے لوہے سے اپنے آپ کو ڈھک رکھا تھا اور صرف اس کی آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس زمانے میں بلٹ پروف جیکٹ اسی طرح لوہے سے بنی ہوتی تھی جو تلوار کے وار سے بچاتی تھی۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی آنکھ میں ایسا نیزہ مارا کہ وہ اندر گھس گیا اور پھر آپ نے اسے نکالنے کی کوشش کی تو نہیں نکلا پھر آپ نے اس کے چہرے پر اپنا پاؤں رکھ کر زور لگایا تو وہ نیزہ باہر نکلا لیکن آگے سے تھوڑا مڑ گیا۔
یہ نیزہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مانگا تو آپ نے پیش کر دیا پھر حضور کی وفات کے بعد آپ نے لے لیا پھر حضرت ابو بکر صدیق نے مانگا تو آپ نے پیش کر دیا پھر ان کی وفات کے بعد لے لیا پھر حضرت فاروق اعظم نے مانگا اور ان کی وفات کے بعد آپ نے لے لیا، اسی طرح حضرت عثمان اور حضرت علی کے زمانے میں ہوا اور جب آپ شہید ہوئے تو آپ کے خاندان میں رہ گیا۔
(بخاری بہ حوالہ ضیاء النبی، ج3، ص358)
اس نیزے میں کیا خاص تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور پھر خلفائے راشدین نے اسے اہمیت دی تو ظاہر ہے کہ یہ وہ نیزہ نہیں جو گھر میں رکھا ہو بلکہ یہ وہ ہے جس نے میدان میں دشمن کی آنکھیں پھوڑی ہیں۔
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صحابہ کس قدر جنگ اور جنگ کی یادگار کو اہمیت دیتے تھے۔
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here